Maktaba Wahhabi

326 - 372
اس سے قبل یہ بات آگئی ہے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کی شادی کرائی تھی یہ آپ کے متبنیٰ تھے اور ان کو زید بن محمد کہا جاتا تھا۔اس کے بعد زید ابن حارثہ کہلانے لگے۔یہ شادی زینب بن جحش سے کرائی گئی تھی۔جو آپ کی پھوپھی زاد تھیں۔مقصد یہ تھا کہ غلاموں کو عرب سوسائٹی میں جو دوسرے درجے کا انسان سمجھتا جاتاتھا اس نظریے کو دور کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے شرافت و کرامت کاجو اصول مقرر فرمایا ہے اسے بروئے کار لایا جائے۔ ﴿اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰهِ اَتْقَاکُمْ﴾’’تم میں سے زیادہ شریف وہی ہے جو زیادہ متقی ہے۔‘‘ اور یہ مثال عملاً قائم کی جائے جو فی الواقعہ مثال ہو۔ اس کے بعد مشیت الٰہیہ کا تقاضا یوں ہوا کہ رسالت کی ذمہ داریوں میں اس ذمہ داری کا اضافہ کردیا جائے کہ متبنٰی کی مطلقہ کے ساتھ نکاح کی مثال بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود قائم کریں تاکہ متبنیٰ کی رسم کے جو گہرے آثار تھے وہ بھی مٹ جائیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم یہ نمونہ معاشرے کے سامنے پیش کریں۔ان حالات میں کہ کسی اور کی ہمت اس کام کے لیے نہ ہوسکتی تھی۔اگرچہ رسم متبنٰی قانوناً اور شرعاً اس سے پہلے ختم ہوگئی تھی۔۷؎ ٭ مولانا مفتی شفیع عثمانی فرماتے ہیں: ’’ان میں(عربوں میں) ایک رسم یہ تھی کہ ایک آدمی کسی دوسرے کے بیٹے کواپنا متبنٰی(منہ بولا بیٹا) بنا لیتا تھا اور جو اس طرح بیٹا بناتا۔یہ لڑکا اسی کا بیٹا مشہور ہوجاتا ہے اور اسی کا بیٹا کہہ کر پکارا جاتا تھا۔اور ان کے نزدیک یہ(منہ بولا بیٹا) تمام احکام میں اصلی بیٹے کی طرح مانا جاتا تھا۔مثلاً میراث میں بھی اس کی اولاد کے ساتھ مثل حقیقی اولاد کے شریک ہوتا تھا اور نسبی رشتہ سے جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام ہوتاتھا یہ منہ بولے بیٹے کے رشتہ کوبھی ایسا ہی قرار دیتے مثلاً جیسے اپنے حقیقی بیٹے کی بیوی سے اس کی طلاق دینے کے بعد بھی نکاح حرام رہتاتھا۔یہ منہ بولے بیٹے کی بیوی کوبھی بعد طلاق اس شخص کے لیے حرام سمجھتے تھے۔۸؎ عورت سے بدسلوکی کی روایت ماہنامہ ’’بتول‘‘ ۱۹۵۹ء میں لکھا ہے: ’’ابن آدم اپنے آرام و آسائش اور ترقی وعروج کے لیے جس ہستی کا مرہون منت رہا،جس کے خون سے پرورش پائی،جس کی آغوش شفقت میں پروان چڑھا۔جس نے شمع فروزاں بن کر اس کی تاریک زندگی کو منور کیا۔جس کے تبسم نے اس کی کلفتوں کو راحتوں میں بدل دیا۔جس کی رفاقت نے اس کی صعوبت حیات مستعار کو پُرکشش اور خوشگوار بنایا اسے اس نے ہمیشہ اپنے سفاکانہ مظالم کا نشانہ بنائے رکھا۔‘‘ ۹؎ ٭ مولانا عبدالقیوم ندوی لکھتے ہیں: ’’عالم کا ذرہ ذرہ اور انسانی آبادی کا چپہ چپہ ہمیشہ اس کے خون کا پیاسا،اس کی عزت کے درپے اور اس کی ذلت کا خواہاں رہا۔‘‘۱۰؎ بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی روایت: زمانہ جاہلیت کے عربوں میں یہ روایت رواج پاچکی تھی کہ بچی اور لڑکی اپنی زندگی کا حق نہیں رکھتی۔اس لیے وہ اسے جنم لیتے ہی یابچپن میں ہی زندہ دفن کردیتے تھے۔بلکہ یہاں تک کہ جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوجاتی اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی اور وہ اسے اپنے لیے ناکامی،ذلت و رسوائی اور بے عزتی خیال کرتااور اپنے تمام معاملات کو ترک کرتے ہوئے اب گھر میں شب و روز اور لیل و نہار بسر کرنے لگتا۔اس
Flag Counter