Maktaba Wahhabi

327 - 372
روایت جاہلی پر قرآن و سنت کے دلائل و براہین اور مختلف مفسرین و دانشوروں کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِذَا الْمَوْئُ دَۃُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾۱۱؎ ’’اور جب زندہ گاڑی گئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی۔‘‘ زمانہ جاہلیت میں بچیاں زندہ درگور دو طریقوں سے کی جاتی تھیں جن کوفتح الباری میں نقل کیا گیا ہے: 1۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ((احدھما ان یأمر امرأتہ اذا قرب وضعھا ان تطلق بجانب حضیرۃ،فاذا وضعت ذکرا القبۃ و اذا وضعت انتی طرحتھا فی الحیضرۃ)) ۱۲؎ ’’ان میں سے ایک یہ تھا کہ مرد اپنی بیوی کو وضع حمل کے وقت حکم دیتاکہ کسی گڑھے کے کنارے چلی جاؤ چنانچہ وہ گڑھے کے کنارے بچہ جنتی اگر بیٹا ہوتا تو اسے زندہ رکھتی اور اگر بیٹی ہوتی تواسے گھڑے میں پھینک دیتی۔‘‘ 2۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ((ومنھم من کان اذا صارت البنت سداسیۃ قال لامھا،طیسھا و زینھا لازوریھا اقاربھا ثم یعبددبھا فی الصحرا ء حتی یاتیی البئر فیقول لھا انظری فیھا ویدفعھا من خلفھا و یطھھا)) ۱۳؎ ’’دوسرا طریقہ یہ تھاکہ جبب بیٹی چھ سال کی ہوجاتی تو مرد اس کی ماں سے کہتا اس کو بناؤسنوارو میں اسے لے کر اپنے رشتہ داروں کے ہاں جارہا ہوں،وہ اسے لے کر دور صحرا میں چلا جاتا۔یہاں تک کہ ایک کنویں پر آتا اور بیٹی سے کہتا کہ کنویں میں دیکھو۔جب وہ کنارے پر آکر کنویں میں جانکتی تو اس کو پیچھے سے آکر دھکا دے دیتا۔‘‘ ٭ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’عرب جاہلیت کے اُجڈ قبائل میں سنگدل باپ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔بیشتر اس سنگدلی کا سبب فقر کا اندیشہ ہوتا،مگر بعض حالات میں غربت کی بے اعتدالی بھی اس کا باعث بن جاتی۔ان مظلوم بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے چونکہ ان کے باپ ہی ہوتے تھے۔جن کو ان پر کلی اختیار ہوتا۔‘‘۱۴؎ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْھُہُ مُسْوَدَّا وَّھُوَکَظِیْمٌُ﴾۱۵؎ ’’ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے ہاں بیٹی پیداہوئی ہے تو ان کے گھر صف ماتم بچھ جاتی۔چہرے پر مایوسی سیاہی پھیل جاتی۔دل غم و اندوہ سے بھر جاتا ہے۔‘‘ سوہ النحل میں ہے: ﴿وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالأُْنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہُ مُسْوَدَّا وَّھُوَ کَظِیْمٌ﴾۱۶؎ ’’جب ان کو بیٹی کی خوشخبری سنائی جاتی تو ان کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی اور ان کے غصے کی حد نہ رہتی۔‘‘ مزید فرمان ربانی ہے:
Flag Counter