Maktaba Wahhabi

90 - 372
انڈیا کے سابق وزیراعظم نے گذشتہ دنوں ٹیلی ویژن پر اپنی تقریر میں مسلمانوں کی نکاح کے اندر لڑکیوں کی رضا مندی لینے کے طریقے کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’’لوک سبھا کے اجلاس میں بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی نے اپنی تقریر کے دوران ایک موقع پر کہا کہ مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مجھے ایک بات بہت پسند ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی سے اس کی رضا مندی لی جاتی ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ چیز نہیں یہاں پر لڑکیوں کو گائے بھینس کی طرح بیاہ دیا جاتا ہے۔‘‘ ۸۲؎ 4۔فریقین کی طرف سے ایجاب و قبول لازمی ہے ٭ علامہ صالح عبدالسمیع الازہری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ورکنہ ولی و صداق و صیغہ بانہ کحت و زوجت … أی ہذا اللفظ من الولي‘‘۸۳؎ ’’نکاح کا رکن ولی،مہر اور ایجاب(ولی کی طرف سے لڑکی کو پیش کرنا ) ہے… نکاح کا رکن یعنی نکاح کے واقع ہونے کے لئے چار ارکان ضروری ہیں،جن پر نکاح کا وجود موقوف ہے… ان میں سے ایک صیغہ ایجاب وقبول ہے جو ولی اپنی لڑکی کی طرف سے سر انجام دیتا ہے۔‘‘ ٭ شافعیہ کے امام ابوبکر بن محمد حسینی شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ولا یصح عقد النکاح الا بولی ذکر… فلا تصح عبارۃ المرأۃ فی النکاح إیجابا و قبولا فلا تزوج نفسھا بإذن الولي ولا بغیر إذنہ ولا غیرھا لا بولایۃ ولا بوکالۃ للأخبار‘‘ ۸۴؎ ’’اور نکاح صحیح نہیں ہوتا مذکر ولی کے بغیر… پس نکاح کی عبارت میں عورت کی طرف سے ایجاب و قبول میں بھی کوئی اعتبار نہیں۔عورت ولی کی اجازت کے باوجود اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی(بلکہ ولی ہی اس کا نکاح سرانجام دے گا۔‘‘ واضح رہے کہ ایجاب و قبول میں فریقین مرد و عورت نہیں بلکہ عورت کا ولی اور شوہر ہے،جیسا کہ ہدایہ میں امام مالک اور شافعی سے یوں منقول ہے: ’’وینعقد بعبارۃ النساء أصلا‘‘۸۵؎ ’’نکاح عورتوں کے کہنے سے اصلاً واقع ہی نہیں ہوتا۔‘‘ 5۔خاوند کے لئے مہر دینا لازمی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لرجل تزوج ولو بخاتم من حدید‘‘۸۶؎ امام مسلم سہل بن سعد سے ایک تفصیلی روایت بیان کرتے ہیں جس کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے: ’’فقال یارسول اللّٰہ إن لم تکن لک بھا حاجۃ فزوجنیھا فقال فھل عندک من شی فقال لا واللّٰه یارسول اللّٰہ فقال إذھب إلی أھلک فانظر ھل تجد شیئا فذھب ثم رجع فقال لا واللّٰه ما وجدت شیئا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انظر ولوخاتم من حدید‘‘ ۸۷؎
Flag Counter