Maktaba Wahhabi

329 - 372
عصر حاصر میں خلاف شرع خاندانی روایات اب ہم برصغیر پاک و ہند میں پائی جانے والی علاقائی خاندانی خلاف شرع روایات کو بیان کرتے ہیں۔برصغیر پاک و ہند میں درحقیقت اسلام عرب تاجروں کے ذریعے پھیلا اور برصغیر پاک و ہند میں مذاہب عالم کے نمائندے موجود تھے اور بالخصوص ہندوؤں سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کا اکثر و اوقات میل جول اور لین دین تھااور یہ اکٹھے ہزاروں سال زندگی بسر کرتے رہے اور یہ با ت بھی مسلّمہ حقیقت ہے اور رسول عربی1 کے فرمان ذی شان کے مطابق صحبت کااثر پڑتا ہے اگر کوئی فرشتہ سیرت انسان کے پاس بیٹھے گا تو ایسے ہی اوصاف اس بندے کے ہوں گے اگر قبیح و خبیث اوصاف کے حاملین کی صحبت نصیب ہوگی تو ایسے ہی اوصاف متعلقہ آدمی میں نمودار ہوں گے۔الغرض مسلمانوں نے بہت سی روایات اور رسم و رواج(یعنی ہندوؤں اور سکھوں) سے لیں اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان میں نفاذ اسلام کا مکمل طور پر انتظام نہ ہوسکا جس کی بنا پر مسلمانوں میں وہی خاندانی رسومات و روایات جو ہندوؤں اور سکھوں میں پائی جاتی تھیں مسلمانوں میں سرایت کرگئیں۔اسلامی نقطہ نظر سے ان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ 1۔منگنی کی روایت منگنی کو عربی زبان میں خِطبہ کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے رشتہ منتخب ہوجانے کے بعد اسے مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے کا نام منگنی ہے بالفاظ دیگر نکاح کی بات پکی کرنے کادوسرا نام منگنی ہے۔ منگنی عرب معاشرے کا ایک علاقائی رواج اور روایت تھی اس وقت عورتیں مردوں کو اور مرد عورتوں کو اپنے قاصدوں کے ذریعے پیغام منگنی بھیجا کرتے تھے۔جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ایک خاتون کے ذریعے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام منگنی دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمالیا اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام ملا کہ ’’اپنے بزرگوں کے ساتھ ہمارے گھر آئیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب اور حضرت حمزہ و دیگر قریش کے بزرگوں کے ہمراہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور عمرو بن اسید نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے ولی کے فرائض سرانجام دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پانچ سو طلائی درہموں یا بیس اونٹوں کے بدلے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔الغرض زمانہ جاہلیت میں بھی منگنی کی روایت موجود تھی۔جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرارر کھا کیونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ تھی۔‘‘۲۲؎ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں منگنی کی بے شمار روایات رواج پاچکی ہیں۔جن پر اُٹھنے والے اخراجات سے بیسوں غریب لڑکیوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں۔منگنی کے موقع پر لڑکے کے عزیز و اقارب مٹھائی کے ٹوکرے اور لڑکی اور اس کے اہل و عیال کے لئے بے شمار تحائف لے کر جانا ضروری سمجھتے ہیں اور پھر محرم وغیر محرم افراد خانہ کی موجودگی میں لڑکے اور لڑکیوں کو سونے کی انگوٹھیاں پہننا اور پہنانا اتنا ضروری خیال کیا جاتاہے اور پھر لڑکی کے عزیز و اقارب لڑکے کے گھر جاتے اور بہت زیادہ اخراجات اٹھاتے ہیں اور ایسے موقعوں پر ویڈیو کا بنایا جانابھی منگنی کا جزولاینفک بن چکا ہے۔ایسی روایات کا اسلام کلی طور پر انکارکرتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے اور اسے اسراف و تبذیر خیال کرتا ہے۔الا ّیہ کہ ایک دوسرے کے گھر جاکر جانچ پڑتال کریں اور ان کی ہلکی پھلکی مہمان نوازی بھی کی جائے۔
Flag Counter