Maktaba Wahhabi

99 - 372
تعدد ازواج اسلام کی نظر میں شریعت اسلامیہ میں تعدد ازواج کی حیثیت اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کی خصوصیات میں سے ایک اس کا خاندانی نظام ہے۔پھر خاندان کی اساس،جڑ اوربنیادی اکائی ’نکاح‘ ہے۔جوکہ ایک مقدس بندھن ہے اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کی عفت وعصمت کوبچانے کا ذریعہ قرار دیاہے۔یہ لاپروائی اورغفلت والاعمل نہیں بلکہ سنجیدگی کا طالب ہے چنانچہ شریعت مطہرہ نے نوجوانوں کونکاح پر ابھاراہے اورایک مرد کوبیک وقت اپنی عصمت میں ایک سے لیکر چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے نہ کہ حکم ہے۔اورشریعت مطہرہ میں چار سے زیادہ بیویاں بیک وقت ایک مرد اپنی عصمت میں نہیں رکھ سکتا اوراگر کوئی مرد ایساکرے گا تووہ احسان رہ جائے گا جواللہ تعالیٰ نے زوجین کی صلاحیت کے لیے مشروع کیاہے اسی کی دلیل،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿یَاَیُّہَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَائً وَّاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَام اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔وَاٰء تُوالْیَتٰمٰی اَمْوَالَہُمْ وَلَاتَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَلاَتَأْکُلُوْا اَمْوَالَہُمْ اِلٰی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہُ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا۔وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّاتُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلَّاتَعُوْلُوْا﴾۱؎ ’’لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایااور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلادئیے،اس خدا سے ڈروجس کا واسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔یقین جانوکہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔یتیموں کے مال ان کو واپس دو،اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو،اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کرنہ کھاؤ،یہ بہت بڑا گناہ ہے او ر اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو،تین تین،چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگرتمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے توپھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں۔بے انصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔‘‘ مذکورہ آیت کی سب سے عمدہ تفسیر،سیدہ عائشۃ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ْْ’’اس آیت سے مراد وہ یتیم بچیاں ہیں جوکسی کی کفالت میں ہوتیں اوران کے مال کی رغبت میں وہ ان سے شادی کرلیتا اور ان کی صحبت کا صحیح حق ادا نہ کرتا۔اورنہ ہی ان کے مال میں انصاف کرتا ایسے شخص کے لئے اللہ کاحکم ہے کہ وہ یتیموں کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرلے۔دوسے تین سے یا چار سے۔‘‘۲؎ زیرنظر آیت اورغلام احمد پرویز کی رائے یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ بجائے اس کے کہ دھوکہ دہی کرو،بہتر ہے ان کے علاوہ دیگر عورتوں سے شادی کرلو۔اور ساتھ ہی اس کی حدبندی کردی یعنی زیادہ سے زیادہ چار تک کی شرط،جہاں یتیم لڑکیوں کے بارے میں ہے وہاں یہی شرط دیگر عورتوں کے بارے میں بھی ہے کہ زیادہ نکاح کی اجازت انصاف سے مشروط ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس آیت سے واضح ہے کہ یتیم بچیوں کے
Flag Counter