Maktaba Wahhabi

111 - 372
تعدد ازواج کے آداب وشرائط 1۔معاشی خوشحالی عورت محض جنسی کھلونا نہیں جس طرح چاہو اس سے اپنی جنسی تسکین پوری کرلو،خواہ قانونی طور پر یا غیر قانونی طورپر۔اورجب اس سے جی بھر جائے یا وہ بوجھ محسوس ہونے لگے توپھر اتار پھینکا جائے۔اورکسی دوسرے کھلونے کی تلاش شروع کردی جائے۔نہیں!بلکہ شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے اورشادی کے بعد بیوی کے رہنے کے لیے مناسب رہائش،اشیاء خورد ونوش،لباس وآرائش اورضروریات زندگی کوپوراکرنے کے لیے دیگر وسائل واسباب کی فراہمی،پھر اسی بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں کی نگہداشت،رضاعت وحضانت اورتعلیم وتربیت وغیرہ کا سارا بوجھ خاوند کے کندھوں پر آتاہے۔ یہ بوجھ صرف ایک ہی بیوی تک محدود نہیں بلکہ ایک سے زائد یعنی چارتک جتنی بیویاں ہوں گی ان سب کے حقوق سے عہدہ برآ ہونے کا خاوند پابندہے حتی کہ انکی رضامندی کے بغیر انہیں ایک گھر میں رہنے پرمجبور نہیں کرسکتا بلکہ ایسے شخص کواتنے ہی گھروں کی ضرورت پوری کرنی ہوگی جتنے گھروں کی ذمہ داری اس کے سرہے۔اس پر صرف ایک یہی دلیل کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(جنہیں چار سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت تھی)انہوں نے بیک وقت جتنی بھی بیویاں رکھیں ان کے گھر جدا جدا بنائے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ گھر چھوٹے چھوٹے تھے لیکن یہ بات ہے کہ ان کے اندر ایک بیوی کی گزر بسر آسانی سے ہوسکتی تھی۔اس لیے ابن قدامہ ودیگر فقہاء کافیصلہ یہی ہے: ’’ولیس للرجل أن یجمع بین امرأتیہ فی مسکن واحد بغیر رضاہما صغیرا کان او کبیرا لأن علیہما ضرار بما بینہما من العداوۃ والغیرۃ واجتماعہما یثیر المخاصمۃ والمقاتلۃ‘‘۴۲؎ ’’خاوند اپنی دوبیویوں کوان کی رضامندی کے بغیر،ایک گھر میں اکٹھا رکھنے کا مجاز نہیں ہے۔خواہ وہ گھر چھوٹا ہو یا بڑا کیونکہ سوتنوں کی باہمی عداوت اورغیرت کی وجہ سے فساد پیدا ہوتاہے۔اورانہیں ایک ہی گھر میں رکھنا گویا انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑائی جھگڑے پر ابھارنے کے مترادف ہے۔‘‘ 2۔ازدو اجی حقوق ادا کرنے کی صلاحیت دوسری شادی کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ آدمی معاشی طورپر خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی طورپر بھی اتنی استطاعت رکھتاہو کہ وہ بیک وقت دونوں یااس سے زائد بیویوں کے ازدواجی حقوق پورے کر سکے۔نان ونفقہ،لباس وآرائش اور رہائش وغیرہ کے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے باوجود اگر خاوند کی طرف سے بیویوں کے حقوق متاثر ہونے لگیں تواندریں صورت اخلاقی اعتبار سے اتنے مفاسد معاشرے میں پیدا ہوں گے کہ جتنے شاید معاشی طور پر عدم کفیل شخص کی دوسری شادی کر لینے سے بھی پیدا نہیں ہوتے۔ 3۔ایک سے زائد شادیاں صرف جنسی تسکین کے لیے نہ ہوں۔ مسئلہ پہلی شادی کا ہونایادوسری،تیسری،چوتھی کا،اسلام اس بات کوناپسند کرتاہے کہ محض شہوت رانی کی غرض سے انسان شادی پہ شادی کرتاجائے۔یہ الگ بات ہے کہ شادی کا مقصد جنسی خواہشات کو زیر کرنا بھی ہے۔لیکن اگر کلی طورپر صرف اورصرف اسی غرض سے
Flag Counter