Maktaba Wahhabi

133 - 372
طلاق کے آداب وشرائط شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کواگربنظرغائردیکھاجائے توطلاق کے آداب وشرائط کثیرتعداد میں ملیں گے۔لیکن ہم یہاں آیات قرآنیہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے چندایک اہم آداب وشرائط کا تذکرہ کرتے ہیں: 1۔ طلاق دینے کے آداب وشرائط میں سے پہلی ہدایت یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: ’’ان عبداللّٰه بن عمر اخبرہ:اَنَّہٗ طلق امرأتہ وہی حائض فذکر عمر لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتغیظ فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم قال لِیُرَاجِعْہَا ثم ثم یمسکہا حتی تطہر ثم تحیض فتطہر فان بدالہ أن یطلقہا فلیطلقہا طاہر ا قبل أن یمسہا فتلک العدۃ کما أمرہ اللّٰہ ‘‘۲۴؎ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ اس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہے۔تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ غضب ناک ہوگئے پھرفرمایا کہ اس سے رجوع کرلیں پھراس کواتنی دیراپنے پاس ٹھہرائیں یہاں تک کہ وہ پاک نہیں ہوتی پھراس کوحیض آئے پھرپاک ہوجائے۔اس کے بعد اگرطلاق دیناچاہیں توطلاق دے دیں اورایسے طہر میں اس کو طلاق دیں جس میں آپ نے اس سے ہم بستری نہ کی ہو پھروہ عدت گزار ے جس کا اللہ نے حکم دیاہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے غضب ناک ہوئے کہ اس نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کوطلاق دے دی ہے،گویاحیض کی حالت میں طلاق دینے کی ممانعت ثابت ہوگی۔ 2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ حالت نفاس میں طلاق نہ دی جائے کیونکہ نفاس،طہر نہیں ہوتا۔لہٰذا حالت طہر میں طلاق دی جائے۔جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایاتھا۔ ’’مرہ یراجعہا ثم لیمسکہاحتی تطہرثم تحیض ثم تطہر‘‘ ’’کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو حکم دے دوکہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے اورپھراتنی دیرتک اس کو روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے۔پھرحیض آئے پھرپاک ہوجائے۔‘‘ 3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس طہر کے اندر خاوند نے اپنی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فلیطلقہاطاہرا قبل أن یمسہا)) ۲۵؎ ’’کہ اسے حالت طہر میں اس سے ہم بستری سے پہلے طلاق دے۔‘‘ اورقرآن مجیدمیں ہے﴿فطلقوہن لعدتہن﴾۲۶؎ ’’تم طلاق عدت(کے آغاز)میں دو۔‘‘ عدت کے آغاز سے مراد عورت حیض سے پاک ہوناہے۔اورحالت طہر عدت کاآغازہے۔اس ہدایت کوسامنے رکھنے سے طلاق کی شرح بہت کم ہوسکتی ہے۔عام طورپرغصہ اوراشتعال ختم کم ہوسکتی ہے۔عام طورپرغصہ اوراشتعال ختم یاکم ہوجائے گا۔اورصرف وہی شخص طلاق دے گا۔جس نے طلاق دینے کاقطعی
Flag Counter