Maktaba Wahhabi

132 - 372
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُمْ وَاَقِیْمُوْا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ﴾۲۱؎ ’’پھر جب وہ اپنی(عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے(اپنے نکاح میں) روک رکھو،یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں اور گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو۔‘‘ مقصدطلاق جہاں تک مقصدطلاق کا تعلق ہے تووہ نکاح کے مقاصد سے معلوم ہوگا،اس لیے کہ عربی کامقولہ ہے ’’تعرف الأشیاء بإضدادہا‘‘کہ اگرکسی چیزکی معرفت حاصل کرنی ہو تواس کی متضاد چیزپرنظر ڈالنے سے حقیقت سے شناسائی ہوجائے گی اسی طرح نکاح،خاندان کے وجود کی اساس اوربنیادہے۔جس کامقصد یہ ہے کہ خاوند،بیوی کے اوربیوی،خاوندکے حقوق پورے کرے۔ اگردونوں کے درمیان،اس چیزکافقدان پایاگیا تومقصدنکاح ختم ہوجائے گا اورطلاق کی نوبت آن پڑے گی۔ ٭ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگرنکاح کے ذریعے حقوق ادانہ کیے جائیں تونکاح کامقصود حقیقی فوت ہوگیا اورضروری ہو گا کہ دونوں کے لئے علیحدگی کی راہ کھول دی جائے اگرایسانہ ہوتاتوانسان کے آزادانہ حق انتخاب میں ایک ظالمانہ رکاوٹ ہوتی اورازواجی زندگی سے محروم کردیناہوتا۔۲۲؎ ٭ مولانامودودوی رحمہ اللہ طلاق مقصد بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’اسلامی قانون زواج کی اصل یہ ہے کہ مناکحت کے تعلق کو امکانی حد تک مستحکم بنایا جائے لیکن جب ان کے درمیان محبت اور موافقت کی کوئی صورت باقی نہ رہے اور رشتہ مناکحت سے قانون کے اصل مقصد کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو توان کی نفرت اور کراہت کے باوجود ان کوایک دوسرے سے وابستہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس صورت میں ان کے لیے علیحدگی کاراستہ کھول دیاجائے۔‘‘۲۳؎
Flag Counter