Maktaba Wahhabi

27 - 372
خاندانی نظام کا ارتقاء واستحکام خاندانی نظام کی مضبوطی اور اس کے استحکام کے لیے قرآنی قوانین معاشرت اور حدود و تعزیرات کا نفاذ ضروری ہے۔ ٭ مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’نوع انسانی کی بقا اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ ہر عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھرالگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو،جو معاشرے میں معلوم اور معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔اس کے بغیر نسل انسانی ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی ایک انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنی نشوونما کے لیے کئی برس کے درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتاہے اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوسکتی۔جب تک کے مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچہ کے وجود میں آنے کا سبب بناہو۔اس طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ تمدن کی تو پیدائش یہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے،ایک گھر اور خاندان وجود میں لانے اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوتی ہے۔اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کرکے،محض لطف اور لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں گے۔اجتماعی زندگی کی جڑ ہی کٹ جائے اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے،جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے۔ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق،جوکسی معروف و مسلم عہد وفا پر مبنی نہ ہو،انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔‘‘۹۶؎ خاندان بھی دوسرے معاشرتی اداروں کی ترکیبی و انتظامی تبدیلیوں سے دوچار ہوکے رہے،اس ارتقاء میں استحکام اور عدم استحکام ہی سے اس کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ایک مستحکم خاندان کی بنیاد مرد و عورت کا تعلق ہے اس سے بچہ وہ سکون حاصل کرتا ہے جووہ ماں کی گود میں بیٹھ کر یا بہن بھائیوں کی معیت میں کھانے اور کھیلنے میں محسوس کرتا ہے،بچے کے لیے پہلا اور آخری سہارا ماں باپ ہوتے ہیں حتی کہ وہ بڑاہو کر آزاد اور خود مختار ہوجاتا ہے۔اس وقت وہ بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کاسہارا بن جاتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ خاندان کا آغاز و ارتقاء ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس میں ہر فرد دوسرے کا سہارا بن جاتا ہے۔۹۷؎ انسان نے بالکل آغاز میں محسوس کرلیا تھا کہ اس کی زندگی کا انحصار خاندان پر ہے۔تمدن کے ابتدائی درجے سے لے کر دور حاضر تک خاندان کی ابتدائی اور بنیادی حیثیت نہیں بدلی۔علماء معاشرت کا کہنا ہے کہ ’’اچھے معاشرے کا دارومدار مستحکم خاندان پر ہے۔‘‘ تاریخ انسانی پر نظر رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ تہذیبوں اور تمدنوں کے زوال کا باعث ہی خاندان کا انتشار ہے۔رومی تہذیب،اسی کے سبب زوال کا شکار ہوئی اور دور حاضر کے متمدن اور مہذب معاشرے اسی انتشار کا شکار ہیں جو انجام کار تباہی تک پہنچا دیتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خاندان ایک ایساادارہ ہے جو انسانی رویے اور طرز عمل کی تشکیل کرتا ہے۔خاندان ہی وہ ادارہ ہے۔جس کے ذریعے معاشرتی تربیت ہوتی ہے اور خاندان ہی وہ ادارہ ہے جو فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا اور اسے فرق مراتب کا شعور بخشتا ہے اگر خاندان کااستحکام ختم ہوجائے تو انسانی طرز عمل معاشرتی فرائض کاشعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا تعین سب کچھ ختم ہوجائے۔ان
Flag Counter