Maktaba Wahhabi

113 - 372
بلا استطاعت تعدد ازواج کی ممانعت اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کے خصائص میں سے ہے کہ یہ کسی مسلمان پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا جس تک رسائی اورطاقت کا انسان میں فقدان ہو۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَایُکَلِّفُ اللّٰہ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَہَا﴾۴۷؎ ’’کہ اللہ تعالیٰ انسان کی طاقت کوسامنے رکھتے ہوئے اسے کسی کام کا مکلف ٹھہر اتے ہیں۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے توپھر اللہ کوماننے والے کا بھی یہی اصول اور ضابطہ ہوناچاہیے کہ اپنے اوپر ایسی کوئی ذمہ داری عائد نہ کرے جس کی وہ استطاعت ہی نہیں رکھتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ ﴾۴۸؎ ’’اورجو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیا رکریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردئے۔‘‘ استطاعت کی اقسام استطاعت کی دواقسام ہیں تعدد ازواج کے لیے دونوں کا پایا جانا ضروری ہے۔جن کا فقدان تعدد ازواج کے لیے ممانعت کا سبب بنتاہے وہ مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ مالی استطاعت کا فقدان 2۔ جنسی استطاعت کا فقدان 1۔مالی استطاعت کا فقدان عصرحاضرمیں سرمایہ اوراقتصاد ایک ایسا معاملہ ہے جس کے تمام لوگ محتاج ہیں۔مالی استطاعت کا فقدان ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے باعث کوئی امر بھی اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ یادرہے کہ پاکستانی معاشرے میں ایک اوسط درجہ کے شہر ی کے لیے دوسری شادی کرنا معمولی بات نہیں۔کیونکہ بالفرض اس کی ماہوار آمدن ۶،۷ ہزار ہے تو آدھی رقم مکان کے کرائے کے لیے نکل جاتی ہے۔اورتقریبا اتنی رقم پانی،بجلی،گیس،فون وغیرہ کے بل اتارنے میں صرف ہوجاتی ہے۔اب جیب خالی ہے مگر بیوی،بچوں کی ضروریات اپنی جگہ الگ سے موجود ہیں۔جنہیں پورا کرنے کے لیے ایسے متوسط شخص کوڈبل ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے۔یا پھر بیوی کو گھر میں کوئی ایسا مناسب پیشہ اختیار کرنا پڑتاہے کہ جس سے نان ونفقہ کے مسائل پورے ہوسکیں۔اورعملا ہر متوسط گھرانہ ایسی صورت حال کی عکاسی کرتاہے۔البتہ جن کا مکان اپنا ہوتاہے وہ کرائے کی رقم کواضافی ڈیوٹی کے بدلے استعمال کرلیتے ہیں مگر پھر بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ مہینہ ختم نہیں ہوپاتا جبکہ تنخواہ ختم ہوجاتی ہے۔اب دوسری شادی کے لیے وہ مزید رہائش اورنان ونفقہ کا بندوبست کہاں سے کرے ؟اس لیے دوسری شادی کرنے والے کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔مذکورہ آیت﴿وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ نِکَاحًا﴾میں اس پہلو کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ بھی یہ کہتے ہیں کہ تعددازواج کی رخصت پر عمل کرنے سے قبل آدمی کے پاس اتنی رقم ہونی چاہیے کہ وہ ہر بیوی کے لیے الگ الگ گھر تیار کرسکے۔ ’’ولیس للرجل أن یجمع بین إمرأتیہ فی مسکن واحد بغیر رضاہما صغیرا کان أو کبیرا لأن علیہما ضرار بما بینہما من العداوۃ والغیرۃ وإجتماعہما یشیر المخاصمۃ والمقاتلۃ‘‘۴۹؎ ’’خاوند اپنی دو بیویوں کی رضامندی کے بغیر انہیں ایک ہی گھر میں اکٹھا نہیں رکھ سکتا خواہ وہ گھر چھوٹا ہویا بڑا،کیونکہ سوتنوں کی باہمی
Flag Counter