Maktaba Wahhabi

325 - 372
المولودلہ،یدعوہ الیہ الناس ویرث میراث الاولاد‘‘۲؎ ’’کسی شخص کا کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا لینا‘‘(اسے متبنی کہا جاتاہے) زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا بنا لیتا تھا اور وہ اپنے متبنی کو وہی حیثیت دیتاتھا جو اس کی حقیقی اولاد کی ہوتی تھی اور لوگ کسی کے متبنٰی کو اس کی طرف منسوب کرکے پکارتے تھے۔اور وہ لوگ اپنی حقیقی اولاد کے برابر اپنے متبنٰی کو وراثت میں حصہ دیتے تھے۔‘‘۳؎ متبنٰی کی شرعی حیثیت موسوعہ الأسراہ الکویتیہ میں ہے: ’’زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو جب کوئی شخص کسی کواچھا محسوس ہوتا اور اسے اس سے محبت اور الفت ہوجاتی تو وہ اس کو اپنا متبنیٰ بنا لیتا اور وہ متبنیٰ بننے والا اس شخص کے ہاں ہی رہتا جس نے اسے متبنٰی بنایا ہوتا اور وہ متبنیٰ کو وہی حیثیت دیتا جیسے وہ اس کی حقیقی اولاد میں سے ہے اور وراثت میں حصہ بھی اپنی اولاد کے برابر دیتا اور وہ شخص یعنی متبنیٰ اسی کی طرف منسوب کرکے پکارا جاتا۔جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت سے قبل زید بن حارثہ کواپنا متبنٰی بنالیا اور اس کو لوگ ’’زید بن محمد‘‘ کہہ کر پکارتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مذکورہ آیات نازل کرکے روایت جاہلی کا خاتمہ فرما دیا۔ ﴿وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَائَ کُمْ… …… وَکَانَ اللّٰہ غَفُوْرً ا رَّحِیْمًا﴾۴؎ گویا اللہ تعالیٰ نے روایت متبنٰی کو ختم کرنے کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈیوٹی لگائی اور قرآن کریم کی آیات کا نزول فرمایا تاکہ قیامت تک کے لیے اس رسم جاہلی کا خاتمہ ہوجائے۔‘‘ ۷۲؎ ٭ سید قطب شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سورت(سورہ احزاب) کے آغاز میں ہی متبنیٰ بنانے کی رسم کوختم کردیا گیا تھا۔اور یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ ایسے لوگوں کو اب ان کے حقیقی آباکی طرف منسوب کردیا جائے اور عائلی تعلقات حقیقی نسب پرقائم ہوں گے،کہاگیا ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَائَ کُمْ اَبْنَائَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکْمْ بِاَفْوَاھِکُمْ وَاللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوْ یَھْدِی السَّبِیْلَ۔اُدْعُوْھُمْ لِاَبَائِھِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَاللّٰهِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْا آبَائَ ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا اَخْطَأتُمْ بِہٖ وَلٰکِنَّ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَکَانَ اللّٰہ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾۵؎ ’’نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹیوں کو حقیقی بیٹا بنایا ہے۔یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی پرحقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔نادانستہ جو بات تم کہو۔اس کے لیے تم پرکوئی گرفت نہیں ہے۔لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کادل سے ارادہ کرو۔اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘ ٭ سید قطب شہید رحمہ اللہ مزیدلکھتے ہیں: ’’عربی سوسائٹی میں منہ بولے بیٹوں کے پختہ رسم و رواج تھے اور گہرے آثار تھے۔ان آثار کو مٹانا اس قدر آسان نہ تھا۔جس قدر نفس متبنٰی کومٹانا آسان تھا۔اس لیے کہ اجتماعی رسم و رواج دلوں پرگہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔اس لیے اس قسم کی رسومات کو مٹانے کے لیے ان کے بالمقابل سخت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔بالعموم پہلے پہل جو اقدامات کئے جاتے ہیں۔ان کے خلاف شوروغل بھی ہوتا ہے اور ابتدا میں اس کے اثرات بھی نفوس پر پڑتے ہیں۔‘‘۶؎
Flag Counter