Maktaba Wahhabi

283 - 372
کر) وہ کہنے لگا ’’افسوس‘‘ کہ میں تو اس کوے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ میں اپنے بھائی کی لاش کو نہ چھپا سکا،بعدازاں وہ اپنے کئے پربہت نادم ہوا۔‘‘ ۲۰؎ استدلالی نکات 1۔ قابیل کااپنے بھائی ہابیل پر ظلم و ستم ڈھایا لیکن حضرت ہابیل صبر کی انتہا کردیتے ہیں حتیٰ کہ انہیں قتل کردیا جاتاہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی قربانی کو مقبولیت سے نوازتے ہیں جو اپنے قلوب و اذھان میں اپنے بھائیوں کے لئے خلوص کا جذبہ رکھتے ہوں اوران کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہوں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کابھائیوں سے سلوک،حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا ان سے سلوک: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِا طْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ وَتَکُوْنُ مِنْ بَعِدْہِ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ قَالَ قَائِلٌ مِّنُھُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ﴾۲۱؎ ’’ان میں سے ایک نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کو مارو نہیں بلکہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے گمنام کنویں میں پھینک دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ 2۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿و َشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاھِمَ مَعْدُوْدَۃٍ﴾۲۲؎ ’’چنانچہ انہوں نے چند کھوٹے درہموں کے بدلے میں اسے بیچ ڈالا۔‘‘ یوسف علیہ السلام کااپنے بھائیوں سے سلوک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اَوٰیٰ إِلَیْہِ أَبَوَیْہِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ إِنْ شَائَ اللّٰہ آمِنِیْنَ۔وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَ خَرُّ وْالَہُ سُجَّدًا وَقَالَ یَأَبَتِ ھٰذَا تَأوِیْلُ رَئْ یَا یَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا﴾۲۳؎ ’’جب یہ لوگ یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا شہر میں چلو اگر اللہ نے چاہا تو امن و سکون پاؤ گے اور یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو اٹھ کر(اپنے) تخت پر بٹھایا اور اس کے بھائی یوسف کے آگے سجدہ میں گرگئے۔یوسف علیہ السلام نے کہا ابا جان یہ ہے۔میرے اس خواب کی تعبیر جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔اللہ نے اسے حقیقت بنادیا۔‘‘ ٭ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بائبل کابیان ہے کہ سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے۔ان کی تعداد ۶۷ تھی۔اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی ان لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں۔اس وقت یعقوب کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں۱۷ سال زندہ رہے۔‘‘ ۲۴؎ ٭ مولانا مودودی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’تلمود میں لکھا ہے کہ جب یعقوب کی آمد کی خبر دارالسلطنت میں پہنچی تو حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بڑے بڑے امراء واہل مناصب
Flag Counter