Maktaba Wahhabi

73 - 131
یُخَمِّرْنَ اَطْرَافَ الْبُنَانِ مِنَ التُّقٰی وَ یَخْرَجْنَ جُنَحَ اللَّیْلِ مُعْتَجِرَاتٖ ’’وہ رات کو بھی تقویٰ کی وجہ سے اپنے پوروں کو ڈھانپ کر (چھپا کر) باپردہ ہو کر نکلتی ہیں‘‘ اور اہل عرب کے ہاں اس خمار کو (المقنع) کہتے ہیں جس کی جمع (مقانع) ہے جو کہ (تقنع) سے ہے جس کا معنی بھی الستر (چھپانا) ہے۔ اور اسی لفظ سے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے کہ : ((کَانَ اِذَا صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ رَفَعَ یَدَیْہِ یَدْعُوا یَقْنَعُ بِہِمَا وَجْہَہٗ۔)) [1] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور ان دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیتے۔‘‘ اور اس کو النصیف بھی کہتے ہیں جیسا کہ نابغہ شاعر ایک عورت کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : سَقَطَ النَّصِیْفُ وَ َلْم تُرِدْ اسْقَاطَہٗ فَتَنَاوَلَتْہُ وَ اتَّقْتَنا بِالْیَدِ ’’اس کا نصف پردہ (چھپانے والا کپڑا) گر گیا اگرچہ اس نے گرانے کا ارادہ نہیں کیا تھا پس اس نے اس کو پکڑا اور ہم سے ہاتھ کے ساتھ اوٹ کر رہی تھی (پردہ کر رہی تھی)‘‘ اور اس کو الغدفۃ بھی کہتے ہیں جو غدف سے ہے جس کا معنی بھی چھپانا ہے چنانچہ ’’ اغدفت المراۃ قناعھا‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب اس نے اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ہو چنانچہ عنترہ شاعر کہتا ہے: اِنْ تَغْدِفُنِیْ دُوْنِیْ الْقِنَاعُ فَاِنَّنِیْ طِبُّ بِآخْذِ الْفَارِسِ الْمُسْتَلْئِمٖ ’’اگر تو میرے لیے اپنے پردے کو لٹکائے گی تو جان لے میں ایسا طبیب ہوں کہ کمینے گھڑ سوار کو بھی پکڑنے کا گر جانتا ہوں۔‘‘ اور اس کو (المسفع) بھی کہتے ہیں جس کا معنی کوئی بھی کپڑا ہے اور عامی لوگوں کے ہاں (الشیلہ) کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ عورت اپنے خمار کو سر پر رکھ کر پھر گردن اور چہرے پر لپیٹ دیتی ہے جو باقی بچے اس کو چہرے اور سینے و گردن پر ڈال دیتی ہے جس سے اس چیز کو
Flag Counter