Maktaba Wahhabi

88 - 112
خوراک ہیں اور میرے پاس نصیبین (ایک شہر کا نام ہے)کے جنوں کے قاصد آئے وہ اچھے جن تھے۔ ۔۔۔۔۔‘‘ اس حدیث میں بھی جنوں سے ملاقات کی صراحت موجود ہے اور یہ حدیث ہجرت کے بعد کی ہے کیونکہ ابو ہریر ۃ رضی اللہ عنہ سن 7ھ میں ایمان لائے ہیں۔ (دیکھیئے سیراعلام النبلاء للذھبی ؒ جلد3ص513) حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وأبو ھریرۃ انما قدم علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی السنۃ السابعۃ المدینۃ ، (فتح الباری،تھذیب التھذ یب) قارئین کرام یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات جنوں سے ہوئی ایک اور حدیث صحیح بخاری میں ہے جس کو مصنف نے نشانہ بنایا۔ ’’سألت مسروقا من اٰذن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لیلۃ استمعوا القرآن فقال حد ثنی أبوک یعنی عبداللّٰه انہ اٰذ نت بھم شجرۃ۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصارباب ذکر الجن رقم 3859 ) ۔‘‘۔۔۔۔۔مسروق بن اجدع سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کس نے بتلایا کہ جنوں نے رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سنا انہوں نے کہا تمہارے والد عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک درخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔‘‘ یہ واقعہ اس واقعہ سے مختلف ہے جس کا ذکر قرآن کریم سورۃ الجن اور سورۃ الاحقاف میں موجود ہے مصنف نے عام مسلمانوں کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گمراہ کرنے کے لئے دونوں کے نزول کو ایک قرارد ے کر آپس میں تضاد ثابت کیا اور ثابت کیا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہے آیت اور کتب احادیث اور تفاسیر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقریبا ً 6دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات جنوں سے ہوئی۔ جیساکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے دیکھیئے تفسیر ابن کثیر جلد5ص116تا120۔ لہٰذا مصنف کا اعتراض حدیث پر باطل ٹہرا کیونکہ حدیث میں سورۃ الاحقاف کا نزول بعین اسی طرح موجود ہے کہ وحی کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ جنوں کی جماعت قرآن سن رہی تھی۔ رہی بات کہ درخت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو یہ بھی اپنی جگہ برحق اور سچ ہے کیونکہ یہ قصہ اس قصہ سے جو قرآن میں مذکور
Flag Counter