قارئین کرام اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ دبر زنی کرنے کا موقف منحرف مصنف کا ہوسکتا ہے لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ جیسی پاکیزہ شخصیت کا نہیں اور ابن عمررضی اللہ عنہ سے منسوب بات صحیح بخاری میں کہیں نہیں ہے یہ صرف اور صرف بہتان ہے ابن عمررضی اللہ عنہ کا موقف درج ذیل حدیث سے واضح ہورہا ہے: نافع مولی ابن عمر سے کہا گیا کہ آپ کے بارے میں بہت کہا گیا ہے کہ آپ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عورتوں سے دبر زنی کا فتوی دیا۔ نافع نے کہا یہ لوگ میرے اوپر جھوٹ باندھتے ہیں لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے ایک دفعہ ابن عمر مصحف سے تلاوت کررہے تھے جب اس آیت پر پہنچے (نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ )فرمایا : اے نافع جانتے ہو اس آیت کا کیا معاملہ ہے ؟ ہم اہل قریش اپنی عورتوں کے پیچھے سے آتے تھے (یعنی پیچھے سے لیکن بچہ پیدا کرنے کے مقام ) جب ہم مدینہ آئے اور انصاری عورتوں سے نکاح کیا اور ان سے ایسا چاہا تو انہیں ناگوار گزرا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ۔ (السنن الکبری للنسائی باب عشرۃ النساء رقم الحدیث 8978) اگر مصنف امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ حدیث جابرؓ پر غور کرلیتا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ’ یہود کہا کرتے تھے کہ اگر عورت کے پیچھے سے جماع کریں تو بچہ بھینگا پیدا ہوتاہے۔ ‘‘ تو کبھی بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ غور فرمائیے کہ بچہ کس عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے یا پھر مصنف نے کوئی نیا انکشاف کیا ہے !لہٰذا بخاری کی روایت پر اعتراض فضول ہے۔ یہ بدنیت مصنف کی محض بے لگام اتہام ہے۔ اعتراض نمبر 19:۔ مصنف اپنی کتاب کے صفحات 55،56اور57پر لکھتا ہے کہ: قرآن مقدس میں لہوولعب منافقوں ،یہودیوں، نصرانیوں اور کافروں کا پیشہ مذکور ہوا ہے خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ ومن الناس من یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللّٰه ‘‘اللہ کے راستے دین سے روک رکھنے کا اصل مقصد یہی لہو ولعب گانے بجانا اور شیطانی بانسری کی چیزیں ہیں جن سے انسان |