Maktaba Wahhabi

21 - 112
کرتا ہے تو وہ اپنی نگاہیں ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوں کابھی ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہ اپنے قدموں کو وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے یہی حدیث مبارکہ کا مطلب ہے۔ دوسرا مطلب ،میدان جہاد میں جب یہ اللہ کانیک بندہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی مدد اس کے ہاتھ پاؤں ،نظروں ،کے ذریعے کرتا ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور اس کی رضا مندی کے لئے اپنے جوارح کو استعمال کرتا ہے یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مثلاًاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلـٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلـٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی‘‘ (الانفال 8؍17) ’’کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا لیکن انہیں اللہ تعالیٰ نے قتل کیا اور جب آپ نے مٹی پھینکی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی ۔‘‘ اگر کوئی شخص بدنیتی سے غلط مطلب لینا چاہے تو یقینا اس آیت مبارکہ سے بھی غلط مطلب اخذ کرسکتا ہے جس طرح موصوف نے حدیث مبارکہ سے غلط مفہوم اخذ کئے۔آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کافروں پر پھینکی کیا نعوذباللہ اللہ تعالیٰ زمین پر آگیا تھا یعنی کیا یہ آیت وحدت الوجود اور وحدت الشہود والوں کے باطل نظریے کو تقویت دیتی ہے لیکن ہم جوابا ًیہ کہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پھینکنا (کافروں کی طرف)اللہ تعالیٰ کا پھینکنا یوں تھا کہ پھینکا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت اس لئے کی کہ اس کی رمی (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پھینکنے )میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی۔ بلکہ یہی جواب ہے حدیث مبارکہ کا کہ اس بندے کا ہاتھ بننے سے مراد ہرگزیہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول ہوگیابلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ شامل حال ہوجاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئیے حافط ابن حجر کی فتح الباری جلد 11ص414تا422) اعتراض نمبر 5:۔
Flag Counter