Maktaba Wahhabi

76 - 112
ہے کھوج لگانا یہ صرف شیطان کا وسوسہ ہے۔ اعتراض نمبر 31:۔ ’’ولاتکونواکالتی نقضت غزلھامن بعد قوۃ انکاثا‘‘ (النحل ) لیکن داد دیجئے امام بخاری کو جو قرآن کی اس آیت کی تفسیر ایک عورت کا واقعہ بتاتے ہیں جو خرقاء نامی مکہ میں رہتی تھی اور صبح کو سوت کات کر شام کو توڑ موڑ دیتی تھی پھر کما ل تعجب ہے کہ بخاری صاحب ایسی تفسیر سدی کذاب اور ان کے تلمیذ احمق صدقہ بن ابی عمران پر اعتماد کرکے اپنی کتاب میں درج کردیتے ہیں۔ ۔ قال ابن عیینہ عن صدقۃ انکاثا خرقاء کانت اذا أبرمت غزلھا نقضتہ۔۔۔۔ (بخاری 683،قرآن مقدس۔ ۔۔۔۔ص82-83) جواب :۔ قرآن کریم کی آیت ’’وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا۔ ۔۔۔ (النحل 16؍92) ’اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ۔۔۔۔‘ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد مصنف نے علم رجال اور علم جرح وتعدیل میں اپنی چودھراہٹ جمانے کی ناکام کوشش کی اس کوشش میں مصنف کی بدنیتی اور جہالت مزیدعیاں ہوئی۔ قارئین کرام :مصنف نے رواۃ پر جرح کی اور سدی کو کذاب کہا جسکا ترجمہ (حالات زندگی)ہم کتاب کے آخر میں پیش کریں گے اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ سدی باوجود معتبر ہونے کے بخاری کے رجال میں سے نہیں ہے۔ رہا اعتراض صدقہ بن ابی عمران پر تو یہ مصنف کی ناقص تحقیق ہے کہ انہوں نے صدقہ کو صدقہ بن ابی عمران کہا جبکہ صدقہ بن ابی عمران بخاری کے راویوں میں سے نہیں۔ اور یہاں صدقہ ابو الہذیل مراد ہے جن سے امام بخاری نے تعلیقا ذکر کیا جیسا کہ امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا حدیث مصنف کے ناپاک اعتراض سے پاک ہے۔ اور یہ کہنا کہ تلمیذ احمق صدقہ بن ابی عمران تو کتاب کے آخر میں ان کے بارے میں ذکر کردیا جائے گا۔
Flag Counter