Maktaba Wahhabi

29 - 112
اب دیکھنا یہ ہے کہ متعہ اور نکاح میں کیا فرق ہے دراصل ان دونوں میں قدرمشترک اللہ کی اجازت ہے نکاح جوکہ عمومی حالت میں انسان کرتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عورتوں کی شرمگاہوں کو اللہ کے حکم سے حلال کرتے ہو۔ یعنی نکاح میں جو اصل چیز ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے اور جہاں تک متعہ کا تعلق ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے اور اس کی اجازت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور اب اس کے بعد اسے حرام کردیا گیا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے یعنی دونوں کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے۔لہٰذا امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ متعہ کی تین یوم تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی اس کے بعد قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا۔(تفصیل کے لئے دیکھیئے سبل السلام شرح بلوغ المرام للصنعانی ،نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار للشوکانی) حافظ ابن حجر فتح الباری میں اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقمطرازہیں ’’وقد وردت عدۃ احادیث صحیحۃ صریحۃ بالنھی عنھا بعد الاذن فیھا‘‘ ’’کئی احادیث صحیحہ صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں متعہ کی ممانعت میں اس کی اجازت کے بعد‘‘ (فتح الباری جلد9ص208) لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔ اعتراض نمبر 10:۔ مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 31پر قرآن کریم میں اضافہ کرنے کی ناپاک جرم کی جسارت کی۔ وہ لکھتا ہے : قرآن مقدس میں نکاح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ عورت کا حق مہر مال ہونا ضروری ہے عورت کے بضع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسامال دیا جائے جس کی مالیت ہو۔ ۔۔۔اور مال بھی ایسا ہو جس کو عرف عام میں مال کہا جاتا ہو۔ ۔۔۔ردی کاغذ کا ٹکڑا۔ ۔۔درخت کا گرا ہوا یا توڑا ہوا کوئی پتہ۔ ۔۔یا پھٹا پرانا کپڑا۔ ۔۔۔یا لوہے تانبے کاچھلہ انگوٹھی اس کو مال نہیں کہا جاتا مال بھی وہ جو بضع کے بدلے عورت کے لئے نفع مند ہو اور اس کی مالیت ہو۔ لوہے تانبے کی انگوٹھی تو ویسے ہی حرام ہے اس کی اسلام میں مالیت بھی نہیں ہے۔ ۔۔۔
Flag Counter