Maktaba Wahhabi

94 - 112
آواز چیخ کر نکالی جاتی تو پہلی صف کیا مسجد کے باہر تک آواز جاتی لہٰذا حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے مصنف نے یہ تک نہ دیکھا کہ دراصل یہ اعتراض قرآن مقدس پر وارد ہوتا ہے ،جہاں تک امام بخاری رحمہ اللہ کے باب کا تعلق ہے ’’جہر بالتامین‘‘اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آمین چیخ کر پکارا جائے بلکہ جہر کا معنی ہے کہ لوگ سن لیں جیساکہ جہری قرأت لوگ سنا کرتے ہیں۔ ’’ادعواربکم ربکم تضرعاوخفیۃ‘‘ہر گز جہر بالتامین کے خلاف نہیں کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پکارو اللہ کو گڑگڑا کے اور چپکے سے یعنی اللہ ہر طریقے سے سننے والا ہے۔ اب آیت سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گڑگڑاکر پکارا جائے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی سنتا ہے اب اگر کوئی بلند آواز یعنی جہر سے قرأت یا دعا کرتا ہے تووہ مقبول ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سورہ فاتحہ جہراً پڑھی (جوکہ دعا ہے )اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بھی کہی۔ لہٰذا مصنف کا اعتراض کہ جہر سے قرآن پڑھنا دعا کرنا یہ ممنوع ہے یہ سب مصنف کا قرآن پر جھوٹ ہے ،لہٰذا حدیث قرآن کے خلاف نہیں بلکہ مصنف کی رائے قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ اعتراض نمبر 39:۔ قرآن مقدس کا بیان ہے کہ نماز میں خشوع وخضوع نہ ہوتونماز نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔لیکن امام بخاری راویوں پر ہی اعتماد کرکے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیٹھ مبارک کے پیچھے اپنے مقتدیوں کے خشوع کو بھی ان کے دلوں میں دیکھ لیا کرتے تھے اور ان کے رکوع اور سجود کو بھی اچھی طرح دیکھا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوا کرتے تھے اس کے باوجود اپنی پیٹھ پیچھے کے حالات اقتداء کرنے والوں کو خوب دیکھا کرتے تھے۔ ۔۔۔’’ھل ترون قبلتی ھھنا واللّٰه مایخفی علی رکوعکم ولاخشوعکم وانی لاراکم وراء ظھری۔ ۔(201؍1) اگر پیچھے مڑ کر دیکھتے تو التفات فی الصلاۃ حرام تھا اور اگر پس پردہ دیکھتے تو پھر عالم الغیب ماننا پڑے گا ورنہ کیا مطلب ہوگا ؟ (قرآن مقدس۔ ۔۔۔ص108-110)
Flag Counter