Maktaba Wahhabi

86 - 112
کرتی ہے کیونکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ‘‘(الفتح48؍29) ’’وہ (صحابہ)کافروں پر سخت(مگر)آپس میں رحم دل ہیں ۔‘‘ اور یقینا مذکورہ آیت مبارکہ کا شان نزول بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے ساتھ جو مہمان نوازی کا معاملہ فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔ لہٰذا سابقہ آیت اور مذکورہ آیت دونوں کا تعلق مال فئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاکباز کردار کے ساتھ ہے اور صحیح بخاری کی حدیث اس کردار اور ایمان افروز واقعے کو خلاصے کے ساتھ ذکر کرتی ہے لہٰذا یہ حدیث قرآن کے خلاف قطعاً نہیں ہے۔ نوٹ :۔ محترم قارئین اگر کوئی صحیح حدیث بظاہر قرآن کے خلاف نظر بھی آتی ہے تو وہ خلاف نہیں ہے بلکہ ہمارے فہم کا قصور ہے کیونکہ ہر آیت اور حدیث کا پس منظر مختلف ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی آیت یا حدیث خلاف نظر آئے تو اسے اس کے پس منظر تناظر او ر اسلاف سے سمجھنا ہی عقل مندی ہے۔ (قارئین کرام مصنف نے جن راویوں کواپنی کم علمی اور جہالت کے سبب بدعتی اور رافضی کہا ہے ان شاء اللہکتاب کے آخر میں ان راویوں کے بارے میں لکھا جائے گا ) اعتراض نمبر 36:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تصریح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا تھا کہ جنات کے ایک گروہ نے بڑی توجہ کے ساتھ قرآن سنا ہے اور وحی حق نے یہ بھی بتایا اس گروہ نے جاکر اپنی قوم سے ذکر کیا اور یہ تصریح سورۃ الجن کے پہلے رکوع اور سورۃ احقاف کے چوتھے رکوع میں ہے۔ ’’قل اوحی الی انہ استمع نفرمن الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجبا۔۔۔۔۔لیکن امام بخاری ر اویوں کے چکر میں پھنس کر فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنات کے قرآن سننے کی اطلاع ایک درخت نے دی تھی۔ ۔۔۔۔۔ (قرآن مقدس۔ ۔۔۔۔۔ص105)
Flag Counter