Maktaba Wahhabi

87 - 112
جواب:۔ مصنف نے اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے وہی اعتراض کیا جو کئی مقامات پر کرچکا ہے اور الحمدللہ ان اعتراضات کے جوابات بھرپور دلائل کے ساتھ دیئے جاچکے ہیں یہاں مصنف کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن میں ہے کہ جنوں کے آنے کی خبر وحی کے ذریعے کی گئی ،لیکن حدیث میں ہے کہ ایک درخت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ یقینا اس میں امام بخاری رحمہ اللہ کا کیا قصوراگر حدیث پڑھنے والے کی آنکھیں بند ہوں تمام اور اس کی نیت یہ ہو کہ تمام سعی اور وسائل احادیث دشمنی میں لگے امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے وہ حدیث ہی نیت کی درستگی پر مبنی ہے قاری اپنی نیت کو درست کرلے تاکہ اسے حدیث کی معرفت اور فقاہت نصیب ہو۔ اگر ہم قرآن وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ضوء النہار کی طرح یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کسی بھی طرح قرآن کے خلاف نہیں بلکہ آپس میں مطابقت رکھتی ہے۔ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ کئی بار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات جنوں سے ہوئی ہے۔ سورۃ الاحقاف میں جوکا ذکر ہے کہ وحی کے ذریعے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت قرآن سن رہی ہے یہ ابتدائی کا واقعہ ہے ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ : ’’وقصۃ استماع الجن للقرآن کان بمکۃ قبل الھجرۃ ‘‘ (فتح الباری جلد6ص217) یعنی جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ جو قرآن میں ہے وہ ہجرت سے قبل مکہ کا ہے۔ ایک اور واقعہ صحیح بخاری میں ہی موجود ہے کہ ’’عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ انہ کان یحمل مع النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم اداوۃ لوضوئہ وحاجتہ۔ ۔۔۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ذکر الجن رقم الحدیث3860) ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے وضو ء اور استنجا کی ایک چھاگل پانی کی اٹھاکر چلتے ایک بار یہی چھاگل لیئے آپ کے پیچھے جارہے تھے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون آرہا ہے میں نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے چند پتھر ڈھونڈ لادے میں ان سے استنجا ء کروں گا۔ اور ہڈی اور گوبر نہ لائیو۔۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہڈی اور گوبر )یہ دونوں چیزیں جنوں کی
Flag Counter