Maktaba Wahhabi

68 - 112
اس سے مراد صرف وہ نہیں جو امام ابو حنیفہ کے وقت کے تھے بلکہ اصحاب سے مرادہرزمانہ میں ہر وہ شخص ہے جو امام ابو حنیفہ کی رائے کو مانتا ہے۔ اسی طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرے اصحاب میرے سامنے لائیں جائیں گے اس سے مراد صرف صحابہ رضی اللہ عنہم نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ لوگ بھی ہیں جو بعد میں آئینگے۔لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔ اعتراض نمبر 28:۔ قرآن مقدس جس شان سے نازل کیا گیا اسی شان سے جمع ہوا حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی نگرانی میں جمع ہونیوالا قرآن وہ یہی ہے جو اس وقت پوری دنیا میں موجود ہے حفظی قرأت والا قرآن موجود اور محفوظ ہے کوئی دوسری قرأت اس میں موجود نہیں۔ ۔۔۔۔لیکن امام بخاری اپنی کتاب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام پر ایسی روایات لاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو کچھ قرأت سکھائی اور بعض کو اس کے خلاف سکھائی اور یوں ان میں اختلاف کا سبب خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنے۔۔۔ (قرآن مقدس۔ ص76-78) جواب :۔ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے سات حروف میں اترنے پر مصنف کو اعتراض ہے ان کا یہ دعوی کہ قرآن کریم کی مختلف قرأ توں کا وجود نہیں تنگ نظری اور کم علمی کی واضح دلیل ہے۔ مصنف کو حدیث سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی اور وہ اس حدیث کو بھی قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کررہا ہے میں مصنف سے سوال کرتا ہوں کہ اب جو موجودہ قرأت ہے وہ بھی انہی قرأتوں میں شامل ہے اگر یہ قرأت قابل قبول ہے اور بقیہ ناقابل قبول تو اس کی دلیل کیا ہے ؟؟؟ مسئلہ قرأت میں سات حروف سے مراد سات قرآن نہیں بلکہ سات لہجے ہیں جن کو خائن مصنف نے قرآن لکھا۔ ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’قال کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ۔ ۔۔۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھاباب بیان القرآن انزل علی سبعہ احرف )
Flag Counter