Maktaba Wahhabi

44 - 112
آخر ی لفظ ’’احد ثنا ‘‘ سے مصنف نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بدعتی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ مصنف کی تنگ نظری ہے جسے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی’’احد ثنا‘‘ سے یہاں مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد کی جنگیں (جو غلط فہمی کی بنا ء پرہوئیں )مثلاً جمل اور صفین وغیرہ نہ کہ بدعت ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ: ’’یشیر الی ما وقع لھم من الحروب وغیرھا۔۔۔۔‘‘ (فتح الباری جلد7ص572) ’یعنی صحابی رسول کا ’’احد ثنا‘‘ کہنااشارہ ہے ان لڑائیوں کی طرف (جمل صفین وغیر ہ)‘ لہٰذامصنف کی علمی خیانت بھی آپ پر عیاں ہے کہ انہوں نے نہ قرآن کوچھوڑا نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو مصنف کا یہ الزام حدیث دشمنی کی کھلی دلیل ہے جو قابل مذمت ہے۔ اعتراض نمبر 18:۔ مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 52-53میں صحیح بخاری سے ایک روایت نقل کی اور لکھتا ہے کہ:۔۔۔۔۔۔نسآؤکم حرث لکم ‘‘کی تفسیر عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ فرمائی ہے کہ دبرزنی کرنی چاہیے اور یہ معنی ہیں ’’ انی شئتم‘‘ کا۔ ۔۔۔۔۔ (بخاری کتاب التفسیر ) جواب :۔ گمراہ فرقوں کی یہ پہچان ہے کہ وہ آدھی بات نقل کرتے ہیں اور آدھی بات کو چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بات اصل معنی اور مطلب سے ہٹ جائے مصنف نے بھی یہی حرکت کی ہے۔ ابن عمررضی اللہ عنہ کا قول اور آیت سے استدلال کچھ اور تھا لیکن مصنف نے اپنی ذہنی خباثت کو محدثین وصحابہ کرام پر فٹ کرنے کی کوشش میں کچھ سے کچھ بنادیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث کتاب التفسیر میں اس طرح ذکر کی ہے نزلت فی کذ اوکذا: اس بارے میں نازل ہوئی (مصنف نے مکمل حدیث ذکر نہ کی )جس کی وضاحت اسی باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہورہی ہے۔
Flag Counter