Maktaba Wahhabi

78 - 112
قضی فی السماء۔ ۔۔۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ رقم الحدیث3210) ’عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے بادل میں فرشتے اترتے ہیں اور آسمان میں اللہ کے جواحکامات صادرہوئے ان کا ذکر کرتے ہیں، شیطان کیا کرتے ہیں؟ چپکے سے بادل پر جاکرفرشتوں کی باتیں اڑالیتے ہیں اور اپنے پجاریوں کو خبر دیتے ہیں اور پجاری ایک سچی بات میں سو باتیں جھوٹ اپنے دل سے ملادیتے ہیں۔ ‘‘ ایک اصول ہے کہ عدم ذکر سے عدم وجود لازم نہیں آتا یعنی کسی چیز کے ذکر نہ کرنے سے کسی چیز کا نہ ہونا لازم نہیں آتا اس حدیث میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ان کو شہاب سے مار نہیں پڑتی بلکہ ایک اور حدیث ہے جس میں صراحتاً ذکر ہے کہ وہ جاتے ضرور ہیں آسمان کی طرف مگر ان کو وہاں مار پڑتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعتا ً ایک ستارا ٹوٹا اور روشنی ہوگئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ دور جاہلیت میں جب ایسا واقعہ ہوتا تو تم کیا کہتے تھے؟صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے کہ ہم تو یہی کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی مرگیا یا پیدا ہواہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کسی کی زندگی یا موت سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو حاملان عرش تسبیح کرتے ہیں پھر آسمان والے فرشتے جو ان کے قریب ہوتے سبحان اللہ کہتے ہیں۔ حتی کہ سبحان اللہ کی آواز اس آسمان تک پہنچتی ہے پھر چھٹے آسمان والے ساتویں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا وہ انہیں خبر دیتے ہیں یعنی اسی طرح ہر نچلے آسمان والے اوپر آسمان والوں سے پوچھتے ہیں حتی کہ یہ خبر آسمان دنیا تک پہنچتی ہے اور شیطان اچک کر سننا چاہتے ہیں تو ان کو مار پڑتی ہے اور وہ کچھ بات سن کر اپنے یاروں (کاہنوں)پر ڈال دیتے ہیں وہ خبر تو حق ہوتی ہے مگر وہ اسے بدل اور گھٹا بڑھا دیتے ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ سبأ رقم الحدیث3224) اس حدیث کے بیان سے معلوم ہواکہ شیاطین خبر لینے جاتے ضرور ہیں لیکن ان کو مار پڑتی ہے لہٰذا پچھلی حدیث میں صراحت نہ تھی لیکن دوسری حدیث نے مکمل وضاحت کردی۔قرآن کریم میں بھی اس بات کا اشارہ ملتا ہے لیکن بدنیت مصنف صرف اور صرف حدیث پر غیر ضروری اعتراض کیاہے یہ اس کی جہالت کا نتیجہ ہے۔
Flag Counter