Maktaba Wahhabi

77 - 112
اعتراض نمبر 32:۔ قرآن مقدس کے نزول سے قبل تو شیاطین الجن کو کوئی آسمانی خبر فرشتوں کی آپس میں گفتگو کے ذریعہ آدھی پونی سن لی جاسکتی تھی مگر نزول قرآن کے بعد ان کے لئے اللہ نے شہاب ان کو بھسم کرنے والے مقرر کردیئے۔ ۔۔۔قرآن میں ہے ’’واناکنانقعد منھامقاعدللسمع فمن یستمع الآن یجدلہ شھابارصدا ‘‘ اور سطح آسمان کے قریب کچھ ٹھکانوں میں سننے کے لئے جابیٹھتے تھے پس جو وہاں سننے کے لئے پہنچے تو اپنے لئے ایک شعلہ جلادینے والا تیار پاتا ہے یعنی اب کسی جن کا پہلے کی طرح سننا ممکن نہیں رہا۔ ۔۔۔۔ لیکن امام بخاری کی قرآن میں بصیرت کی داد دیجئے کہ وہ نزول قرآن کے بعد بھی اس کے قائل ہیں کہ جن شیاطین اب بھی کوئی نہ کوئی فرشتوں کی بات سن کر اپنے کاہن مریدوں کو بتادیتے ہیں اس لئے کاہنوں کی وہ بات سچی ثابت ہوتی ہے اور اسی سچی بات میں اور جھوٹ ملالیتے ہیں۔ ۔۔۔ ان الملئکۃ تنزل فی العنان وھو السحاب۔ ۔۔‘(بخاری 456 بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ) بخاری صاحب کا شغل چونکہ روایات میں لگن ہی تھا اس لئے ان کی توجہ سورۃ الجن ،سورۃ الحجر ، الصافات کی طرف نہ ہوئی۔۔۔۔۔ (قرآن مقدس۔ ۔۔۔ص83-84) جواب :۔ الحمد للہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر قرآن کریم پر بھی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر بھی کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ دونوں (قرآن وصحیح حدیث )کونجات اورہدایت کا ذریعہ سمجھتے تھے لیکن مجھے افسوس ہے مصنف کے اعتراض پرکہ ان کی نظر قرآن کریم پر بھی نہیں کیونکہ قرآن کی بصیرت تو اہل علم کے لئے ہے جاہلوں کو تو صرف سلام کہہ کر ہی گزر جانا چاہیے کیونکہ جاہل خود تو گمراہ ہوتا ہی ہے باقیوں کو بھی گمراہی کی بھینٹ چڑھادیتا ہے رہی بات امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث کی جس کو مصنف نے قرآن کے خلاف سمجھا وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ ’’انھا سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ان الملئکۃ تنزل فی العنان ھوالسحاب فتذکر الامر
Flag Counter