غزوہ حنین میں چھ ہزار اسیران جنگ کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف بطور احسان بلافدیہ رہا فرمایا بلکہ رہائی کے وقت تمام قیدیوں کو ایک ایک چادر بطور ہدیہ عنایت فرمائی۔[1] اجتماعی قیدیوں کے ساتھ ساتھ ایک انفرادی قیدی کا تذکرہ بھی پڑھ لیجئے۔یمامہ کاحاکم ثمامہ بن اثال گرفتار ہوکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیاتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کاحکم دیااورخود گھر جاتے ہی فرمایا’’گھر میں جو کھانا موجودہے وہ ثمامہ کوبھجوادیاجائے یادرہے ثمامہ ماضی میں نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کرچکاتھا بلکہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قاتل بھی تھااس کے باوجود تین چار دن کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور احسان بلافدیہ رہا کرنے کا حکم دیاتو اس حسن سلوک اور فیضان عفووکرم سے متاثر ہوکرثمامہ مسلمان ہوگیا۔ اب ایک نظر’’مہذب اور امن پسند‘‘یورپ کے اسیران جنگ سے’’حسن سلوک‘‘پر بھی ڈال لیجئے۔ قیصر روم باسل(963ء تا1025ء)نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیران جنگ کی آنکھیں نکلوادیں ہر سوقیدی کے بعد ایک قیدی کی آنکھ باقی رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں۔[2] ایک جنگ میں رومی عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست دی توتمام مسلم اسیران جنگ کو سمندرکے کنارے لٹاکران کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دیئے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پرواپس جائیں تو اس منظر کو دیکھ سکیں۔[3] 1799ء میں مہذب یورپ کے سب سے بڑے جنرل نپولین بونا پارٹ نے یافاکے چارہزار ترک اسیران جنگ کو محض اس عذر کی بناء پر قتل کردیا کہ وہ انہیں کھلانے کے لئے خوراک مہیا نہیں کرسکتا اور نہ مصر بھیجنے کا انتظام کرسکتاہے۔[4] جنگ عظیم دوم(1939ء تا1945ء)میں فلپائن کے ایک محاذ پر امریکہ اور فلپائن کی مشترکہ فوج کے75ہزارفوجیوں نے جاپانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے فاتح فوج نے75ہزاراسیران جنگ کو شدید گرمی،بھوک اور پیاس کی حالت میں65میل پیدل چل کر نظر بندی کیمپوں تک پہنچنے کا حکم دیا بیشتر اسیران جنگ طویل سفر کی ناقابل برداشت صعوبتوں کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہوگئے ۔تاریخ |