لاَ یُقَـــالُ فُــلاَنٌ شَہِیْـــدٌ کسی متعین آدمی کو شہید کہنا جائز نہیں مسئلہ 231 اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کسی متعین آدمی کو شہید کہنا جائز نہیں۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللّٰه عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ (( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لاَ یُکْلَمُ اَحَدٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَنْ یُکْلْمُ فِیْ سَبِیْلِہٖ اِلاَّ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّیْحُ رِیْحُ الْمِسْکِ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ[1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہوا اور اللہ خوب جانتا ہے کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے۔ وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے خون کا رنگ تو خون جیسا ہی ہوگا لیکن اس سے کستوری کی خوشبو آرہی ہوگی۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم اِنَّ فُلاَنًا قَدِاسْتُشْہِدَ قَالَ ((کَلَّا قَدْ رَأَیْتُہٗ فِی النَّارِ بِعِبَائَ ۃٍ قَدْ غَلَّہَا)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ[2] حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں شخص شہید ہو گیا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ہر گز نہیں میں نے اسے مال غنیمت کی ایک چادر چوری کرنے کے گناہ میں آگ میں دیکھا ہے۔‘‘ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ وضاحت : وہ لوگ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے شہیدقرار دیا ہے انہیں قطعی طور پر شہید کہنا جائز اور درست ہے نیز کسی خاص آدمی کو نام لئے بغیر اللہ کے دین کو غالب کرنے والے لوگوں کو عمومی طور پرشہید کہنا درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ! |