Maktaba Wahhabi

54 - 175
کے استسفارپر بتایا گیا ’’ایک عورت کی لاش پر لوگ جمع ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراض ہوکرفرمایا:’’عورت تو قتال نہیں کررہی تھی۔‘‘(پھر کیوں قتل کی گئی؟)چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کے سپہ سالارحضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو پیغام بھجوایا’’ کسی عورت اور مزدور کو قتل نہ کیاجائے۔‘‘(ابوداؤد) عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہذب اقوام، قیصروکسریٰ کا حال یہ تھاکہ 613ء میں ایرانی بادشاہ خسروپرویز نے قیصرروم ہرقل کو شکست دی تو مفتوحہ علاقے میں تمام مسیحی عبادت خانے مسمار کردئیے اور 60ہزار غیر مقاتلین(عورتوں،بچوں،بوڑھوں)کو تہہ تیغ کیا جن میں سے30ہزارمقتولوں کے سروں سے شہنشاہ ایران کا محل سجایاگیا۔[1] ایک نظر ترقی یافتہ یورپ کی مہذب جرنیلوں کے غیر مقاتلین کے بارے میں تعلیمات عالیہ بھی ملاحظہ ہوں:’’گولہ باری کے وقت محصورین میں عورتوں،بچوں اور دوسرے غیر مقاتلین کا موجودہوناہی جنگی نقطہ نظر سے مطلوب ہے کیوں کہ صرف اسی صورت میں محاصر فوج محصورین کو خوفزدہ کرکے ہتھیار ڈالنے پر جلدی سے جلدی مجبور کرسکتی ہے۔[2] 1857ء کی جنگ آزادی ہند میں انگریزوں نے جس بے دردی اور سنگدلی سے بچوں اور عورتوں کو قتل کیااس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایاجاسکتاہے’’جنگ آزادی میں27ہزاراہل اسلام نے پھانسی پائی،سات دن برابرقتل عام ہوتارہا جس کا کوئی حساب نہیں بچوں کو مارڈالا گیا،عورتوں سے جو سلوک کیاگیاوہ بیان سے باہر ہے اس کے تصور سے ہی دل دہل جاتاہے۔[3] 1907ء کی ہیگ کانفرنس میں غیر مقاتلین کو تحفظ دینے کا معاہدہ طے ہوالیکن اس معاہدے کے بعد جب متحدہ ریاست بلقان اور ترکی کے درمیان جنگ ہوئی تو اس میں دولاکھ چھیالیس ہزار غیر مقاتلین مسلمان تلوار کے گھاٹ اتاردیئے گئے۔[4] جنگ عظیم اول اور دوم میں مہذب یورپ جرنیلوں نے جس سنگدلی اور بربریت کے ساتھ شہری آبادیوں پر بم باری کی اس نے مقاتلین اور غیر مقاتلین کا تصور ہی ختم کردیا۔جنگ عظیم دوم میں جدید تہذیب وتمدن کے تین بڑے علمبرداروں(امریکہ کے ٹرومین،برطانیہ کے چرچل اور روس کے سٹالن) نے جاپان کا سلسلہ فتوحات روکنے کے لئے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر جاپان کی شہری آبادی کو ایٹم بم کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیاچنانچہ 6اگست1945ء کو ہیروشیما اور9اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گراکر ڈیڑھ لاکھ غیر مقاتلین کی شہری آبادی کو آن واحد میں صفحہ ہستی سے
Flag Counter