بعض علماء کے نزدیک امام صاحب کے دو نہیں تین دور ہیں ۔ان میں بھی دو گروہ ہیں :ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اعتزال سے تائب ہو کر آپ اس مذھب پر چلے جس پر آج کل کے اہل الحدیث ہیں (یعنی اہل السنہ کے مذھب پر چلے)پھر مزید تحقیق کی تو اس مذھب پر آگئے جو اشاعرہ کا مذھب ہے۔[1] بعض علماء کے نزدیک آپ اعتزال سے تائب ہوئے،پھر کلابی ہوئے اور پھر اہل السنہ کے مذھب کو قبول کرلیا ۔بعض علماء کے نزدیک آپ نے خالص اہل السنہ کے مذھب کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ ابن کلاب کے مذھب کا کچھ حصہ بھی آپ میں موجود رہا ۔جب کہ بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ نے مکمل طور پر خالص مذھب اہل السنہ کی طرف رجوع کر لیا تھا۔جس بات کی تائید امام اشعری کی کتب اور محققین ائمہ سے ہوتی ہے وہ یہی رائے ہے کہ اشعری اگرچہ الابانہ اور مقالات الاسلامیین میں مذھب اہل السنہ کے بہت قریب آگئے مگر اس کے باوجود ابن کلاب کے مذھب کا کچھ حصہ بھی ان میں باقی رہا ۔جیسا کہ خود الابانہ میں مسئلہ استطاعت اور مسئلہ کلام میں اس کے شواہد موجود ہیں ۔[2]
ہم یہاں ذیل میں چند اس بات کی ادلہ ذکرکرتے ہیں کہ الابانہ امام اشعری کی آخری کتب میں سے ہے : [3]
|