بلکہ کسی ماہر فن کی تشریح وتوضیح بھی ضروری ہے۔بطور نمونہ ہم ’’شاطبیہ‘‘ کے مقدمہ میں سے چند اشعار پیش کرتے ہیں ۔ فضائل قرآن سے متعلق اشعار وإن کتاب اللّٰہ أوثق شافع وأغنی غناء واہبا متفضلا ’’یعنی اللہ کی کتاب اپنے حامل کے لیے بہترین وقابل اعتماد و سفارش کرنے والی ہے۔‘‘ قرآن مجید کی تلاوت کے متعلق لکھتے ہیں : وخیر جلیس لا یمل حدیثہ وتزدادہ یزداد فیہ تجملا ’’ اور(قرآن) بہترین ہم نشین ہے۔ اس کے بار بار ورد کرنے سے اکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ اس کے حسن وجمال میں مزید اِضافہ ہوجاتا ہے ۔‘‘ قرآن قبر کی تاریکیوں میں روشنی میں سامان فراہم کرے گا: وحیث الفتیٰ یرتاع فی ظلماتہٖ من القبر یلقاہ سنا متہلِّلا ’’اور جس جگہ قاری قبر کی تاریکیوں سے گھبرائے گا یہ قرآن مجید اس کے لیے روشنی کا سامان فراہم کرے گا۔‘‘ مزید لکھتے ہیں : یناشد فی إرضائہ لحبیبہٖ وأجدر بہ سؤلا إلیہ موصَّلا ’’قرآن اپنے دوست(قاری) کو راضی کرنے کے لیے اصرار کرے گا اور کس قدر عجیب سوال اس تک پہنچایا گیا ہے۔‘‘ قراء سبعہ کے بارے میں اشعار جزی اللّٰہ بالخیرات عنَّا أئمۃ لنا نقلوا القرآن عذبا وَّسلسلا ’’اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے آئمہ کرام کو جزائے خیر دے جنہوں نے ہمارے لیے شیریں اور بآسانی حلق سے اترنے والا قرآن کریم نقل کیا۔‘‘ اس کے بعد لکھتے ہیں : فمنہم بدور سبعۃ قد توسطت سماء العلا والعدل زہرا وَّکملا ’’پس ان میں سے سات(قراء) چودھویں کے چاند کی طرح آسمان کی بلندی میں عدل کے ساتھ روشن اور کامل ہوئے ۔‘‘ لھا شہب عنہا استنارت فنوّرت |