التلاوۃ ص۸۴ اور ۸۵]تاہم نہ تو کتب ضبط میں اس کے لیے کوئی علامت مذکور ہوئی ہے اور نہ مصاحف کی کتابت میں کہیں کوئی مستعمل علامت نظر سے گذری ہے۔اس طرح یہ بھی پاکستانی ’تجویدی قرآن‘ کی ہی خصوصیت ہے کہ اس میں حروف قلقلہ یعنی قُطُبُ جَدٍّ کے لیے ایک مخصوص علامت سکون ’۸‘ اختیار کی گئی ہے۔ [تجویدی قرآن مجید(مقدمہ) ص۱۳] ٭ تعریہ یعنی حروف کو علامت ضبط سے خالی رکھنے کے بارے میں بھی بلادمشرق اور بلاد عرب اورافریقہ میں مختلف قواعد رائج ہیں ۔ ان میں سے اکثر کا ذکر ادغام اور حروف زوائد کے ضمن میں گزر چکا ہے، اعادہ غیر ضروری ہے۔ ٌ کتابت مصاحف میں علامات ضبط اتنے متنوع اور مفصل استعمال کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ محض علامات ضبط کی بنا پر استاد کی شفوی تعلیم اور تلقی و سماع کے بغیر صحیح نطق اور درست قراءت اور ٹھیک ٹھیک ’اَداء‘ کا سیکھنا ممکن نہیں ۔ علاماتِ ضبط تعلیم قراءت میں ممدومعاون ہیں مگرشفوی تعلیم سے مستغنی نہیں اور نہ ہی استاد کا بدل ہیں ۔ ٭ کتابت مصاحف میں علامات ضبط کے اس کثیر التنوع استعمال سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ علم الضبط کو علم الرسم کی طرح کی کوئی ایسی تقدیس حاصل نہیں ہے کہ کسی ایک زمانے یا کسی ایک علاقے میں رائج طریق ضبط کی پابندی کو واجب قرار دیا جائے۔ [کتابۃ المصحف ص۱۸ اور ص۳۱] ٭ اوّل تو روایات قراءات کے اختلاف یا اداء کے اختلاف کے بناء پر علامت ضبط کااختلاف لازمی ہے، گو یہ اختلاف تنوع ہے اختلاف تضاد نہیں ہے۔ [ایضاً ص۴۴]اس وقت دنیا بھر میں چار روایات کے ساتھ مطبوعہ مصاحف دستیاب ہیں ، یعنی حفص عن عاصم، ورش عن نافع، قالون عن نافع اور الدوری عن ابی عمرو رحمہم اللہ ۔ جس ملک اور جس علاقے میں جو قراءت متداول ہے، وہاں عام آدمی کے لیے دوسری قراءت کے ساتھ مطبوعہ مصحف سے درست تلاوت ہرگز ممکن نہیں ہوگی۔ حکومت سوڈان کے بروایۃ الدوری مصحف شائع کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ سوڈان میں صدیوں سے قراءت تو الدوری کی رائج تھی، جس کے لیے قلمی مصاحف کا خریدنا بوجہ گرانیٔ قیمت دشوار تھا۔ مصر سے درآمدہ روایۃ حفص کے مطبوعہ مصاحف کم ہدیہ پر ملتے تھے۔ اس سے اہل سوڈان کی قراءت نہ الدوری کی رہی اور نہ ہی حفص کی۔ علمائے سوڈان اور حکومت سوڈان کی اس سلسلے میں جملہ مساعی کی تفصیل وہاں کی وزارت اوقاف کے تعارفی کتابچہ ’کتابۃ المصحف الشریف‘میں دی گئی ہے۔ ٭ ایک ہی قراءت کی صورت میں بھی علامات ضبط مختلف استعمال کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی یہ زمانی اور مکانی اختلاف موجود ہے۔ مصر اور تمام ایشیائی ممالک میں روایت حفص عن عاصم ہی رائج ہے، مگر مصر، ترکی، ایران، برصغیر اور چین وغیرہ میں رائج علامات ِضبط میں بڑا تنوع ہے، جس کی کچھ جھلک اِسی مقالہ میں پیش کی گئی ہے۔ کم و بیش یہی حال اُن افریقی ملکوں کے مصاحف کا ہے جہاں قراءۃ ورش متداول ہے۔ ٭ اگر ایک ہی روایت قراء ت،مثلاً حفص والے تمام اسلامی ملک مل کر اور متفقہ طور پر اپنے ہاں رائج قراءت کے لیے یکساں علامات ضبط مقرر کرکے اس کو نافذ کرنے کا منصوبہ بنا سکیں تو یہ یقیناً ایک مستحسن اقدام ہوگا، مگر علامات ِضبط کے اختیار اور انتخاب میں کسی علاقائی ترجیح کی بجائے افادیت، جامعیت اور اختصار کو سامنے رکھا جائے۔ ٭٭٭ |