اور راگ و سُر کی آوازیں اس میں داخل کی ہیں جن کا تجوید و قراءت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر فی زمانہ بعض خود رو مجودین، نام نہاد قراء اور پیشہ ور واعظ ایسی اَصوات و کیفیات کو تلاوت قرآن میں شامل کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ، کلام اللہ کو موسیقاروں کی طرح موسیقی اور مغنیوں کی طرح سینماؤں کے گانے کی طرز پر پڑھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کتاب اللہ کا حق ادا کررہے ہیں ۔ ایسے لوگ عموماً خود رو، خود ساختہ اور قراءت فروش قراء ہوتے ہیں یا وہ مدعی قراءت وعظ فروش علماء جو محافل و مجالس میں پڑھتے ہیں اور لہجہ بازی کے نشہ میں حروفِ قرآنی کا حلیہ بگاڑ کر سامعین سے داد لینے کے متمنی ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف و توصیف کی جائے اور انہیں کسی اچھے لقب و خطاب سے نوازا جائے۔ پھر غضب خدا کا یہ کہ گا گا کر جس قدر بگاڑا جائے اسے قراءت سبعہ کی طرف منسوب کیا جاتاہے اور بلا خوف وخطر کہا جاتا ہے کہ ہم تو سبعہ میں پڑھ رہے ہیں ۔ العیاذ باللّٰہ گویاہر عیب و غلطی بے قاعدگی اور ہر نئی چیز کا اِدخال فی القرآن کا نام قراءت سبعہ رکھ دیا گیاہے اور جملہ خود ساختہ خرافات کا مجموعہ قراءات سبعہ تصور کرلیا گیا ہے پس ایسے ہی خود رو اور خود ساختہ قراء کے متعلق فرمایا گیا: رب قاری للقرآن والقرآن یلعنہ اور مجالس و محافل میں ایسے ہی مجتہد قراء کے بارے میں علامہ رفاعی رحمہ اللہ کا شعر نہایت ہی موزوں ہے۔ رب تال تل القرآن مجتھدا بین الخلائق والقرآن یلعنہ ’’اکثر پڑھنے والے بین المحافل مجتہدانہ شان میں بناؤ سنگار سے قرآن پڑھتے ہیں اور حال یہ ہے کہ قرآن کا ایک ایک حرف ان پر لعنت کرتا رہتا ہے۔‘‘ ۱۷۔ قراء کو حروفِ مفخمہ میں ہونٹ گول نہیں کرنے چاہئیں ۔حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تیسیر التجوید کے حاشیہ ص۲۴ پر لکھتے ہیں کہ ’’ہونٹوں کو گول کرکے حروف مفخمہ کی تفخیماَداکرنا غلط ہے۔ فنی لحاظ سے ایسی ادا قابل اعتراض ہے۔‘‘ قاری عبدالخالق صاحب رحمہ اللہ تیسیر التجوید ص۳۰ پر لکھتے ہیں کہ ’’حروفِ مستعلیہ میں تفخیم اتنی نہ کی جائے کہ واؤ کی بو یا صاف واؤ کی زیادتی معلوم ہو، کیونکہ یہ اہل فن کے طریقہ کے خلاف ہے۔ غرضیکہ تفخیم میں ہونٹوں کوبالکل دخل نہیں ۔‘‘ قاری عبدالرحمن صاحب رحمہ اللہ فوائد مکیۃص۲۱ پر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حروف مفخم کے فتحہ کو مانند ضمہ کے اور اس کے بعد کے الف کو مانند واؤ کے پڑھنا بالکل خلاف اصل ہے ....یہ خلافِ قاعدہ ہے۔ یہ افراط و تفریط کلامِ عرب میں نہیں اہل عجم کاطریقہ ہے۔‘‘ ۱۸۔ قراء کوبلا تکلف پڑھنا چاہیے کسی قسم کا تکلف یا تصنع نہ ہونا چاہئے۔ حضرت قاری محمدشریف رحمہ اللہ معلّم التجوید ص۵۰ پر فرماتے ہیں کہ: ’’تکلیف سے مراد یہ ہے کہ قاری کے چہرے سے پڑھتے وقت گرانی کے آثار ظاہر ہوں ، مثلاً پیشانی پر شکن پڑنا، جلد جلد پلکیں گرانا، زور سے آنکھیں بند کرنا، ناک کا پھولنا، منہ کاٹیڑھا ہونا اور جن حرفوں کی ادائیگی میں ہونٹوں کو دخل نہیں ان کے ادا کرنے میں ہونٹوں کو گول کرنا یاخواہ مخواہ حرکت دینا یہ تمام باتیں معیوب ہیں ۔‘‘ امام القراء حضرت قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تعلیقات مالکیہ ص۴ پر لکھتے ہیں کہ: ’’نیز ادائیگی حروف میں اس کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ کسی قسم کا تکلف اور تصنع نہ ہو، مثلاً زائد از ضرورت ہونٹوں کا |