’’ہل تستطیع أن تسأل ربَّک‘‘۔[ القرآن،۳/۷۳] ’’کیاآپ اپنے رب سے سوال کرسکتے ہیں ‘‘۔ نتیجہ قراء ات اس آیت میں ان دو قر ا ء توں کی بناء پر ایک ہی آیت سے حواریوں کے سوال کے دو پہلو سامنے آتے ہیں : (۱) یہ کہ وہ یہ سوال کر نا چاہتے تھے کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کارب آسمان سے کوئی مائدہ نازل کرے گا یا نہیں کرے گا ۔ یعنی وہ اپنے قول:﴿آ منّا واشھَد بأ نّنا مسلمون ﴾[المائدۃ:۱۱۱] کی بنا پر مومن تو تھے، لیکن ابھی ان کو ایمان کے اندروہ رسوخ حاصل نہیں ہوا تھا لہذا وہ یہ سوال کر بیٹھے ۔ جیسا کہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ وفیہ علی ماقیل حینئذ تنبیہ علی أن ادعاء ھم الإخلاص مع قولھم ھل یستطیع ربک،لم یکن عن تحقیق منھم ولا عن معرفۃ باللّٰہ تعالیٰ وقدرتہ سبحانہ لأنھم لو حققوا وعرفوا لم یقولوا ذلک إذ لا یلیق مثلہ بالمومن باللّٰہ عز وجل۔‘‘[روح المعانی:۷/۵۰،۵۱] یعنی ھل یستطیع والی قراءت ان کے دعویٰ ایمان کے خلاف تھی۔ اس وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو تنبیہ فرمائی اورکہا اللہ سے ڈرو۔ (ب) لیکن دوسری قراءت یعنی ھل تستطیع ربک یہ ان کے دعویٰ ایمان باللہ کے خلاف تو بظاہر نہیں ہے، لیکن ا س سے یہ شبہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو نہیں پہچان سکے تھے۔ گویا ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی درخواست کی قبولیت پر شک تھا ،جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو تنبیہ فرمائی ۔خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں قراء توں سے حواریوں کے سوال کے دونوں پہلوؤں کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔ نمبر۸۔ المُخلِصِینَ/المُخْلَصِینَ یہ کلمہ مفرد اورجمع تقریباً دس مقامات پر قرآن پاک میں آیا ہے ۔ جیسے: ﴿اِنّہ من عبادنا المخلصین﴾ [یوسف :۲۴] ’’بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہے۔‘‘ ﴿قالَ ربِّ بِمَا أغویتَنی لاُ زیّننّ لھُم فی الأرضِ ولاُغوینّھُم أجمعین، إ لّا عبادَ ک منھم المُخلَصینَ /المُخلِصینَ﴾[الحجر :۳۹،۴۰] ’’شیطان نے کہااے رب جیسے تونے مجھے راہ سے ہٹادیا،میں بھی ان سب کوبہاریں دکھلاؤں گازمین میں ،اوران سب کوراہ سے بھٹکادوں گا۔‘‘مگرجوتیرے مخلص بندے ہوں ۔‘‘ اسی طرح مفرد کا صیغہ بھی آیا ہے:﴿واذکرفی الکتاب موسیٰ، اِنّہ کان مخلصاً وکا ن رسولا نبیاً ﴾ [مریم :۵۱] ’’اورکتاب میں موسی علیہ السلام کاذکرکیجئے،کیونکہ وہ مخلص تھے، اوررسول اور نبی تھے۔‘‘ |