Maktaba Wahhabi

320 - 933
واضح رہے کہ تواتر کی مذکورہ تعریف کے قائلین میں سے بھی بعض محتاط اہل علم پہلی شرط کے ضمن میں عدد ِ کثیر یا ’جماعت‘ کے افراد کی تعیین نہیں کرتے، کیونکہ بسااوقات تھوڑے افراد سے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر خبرو روایت میں علم قطعی حاصل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات بہت سارے افراد بھی مل جائیں ، تو یقین کامل پیدا نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی مذہب یہی ہے کہ متنوع روایات میں جس عدد سے یقین حاصل ہوجائے پس وہی عدد اُس متعین روایت میں معین عدد قرار پائے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام مجموعۂ روایات میں کسی ایک متعین عدد کی تعیین بالعموم کی جاسکے، جیساکہ بعد کے زمانوں میں بعض افراد نے کیا ہے۔ اس تعریف کے بالمقابل محققین اہل علم نے تواتر کی تعریف میں درج بالا تعریف ِتواتر کے خلاصہ یعنی حصول ِعلم قطعی کو اصل قرار دیا ہے یعنی ان چار شرطوں کو اصل بنانے کے بجائے ان کے نتیجہ کو اصل بنایا ہے اور کہا ہے کہ ’’ما أفاد القطعی فھو المتواتر‘‘ یعنی جو روایت بھی علم قطعی کافائدہ دے وہ متواتر کہلائے گی، برابر ہے کہ اس میں یہ چار شرطیں پائی جائیں یانہ پائی جائیں ۔ جیساکہ عام طور پر جب یہ چار شرطیں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات جب یہ چار شرطیں نہ پائی جائیں اور روایت خبر واحد کے طریق پر مروی ہو اور صحیح ہو ، اگر وہ کچھ قرائن سے مقرون ہو تو ایسی روایت بھی ماہرین فن حدیث کے ہاں علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ الغرض اِن محققین اہل علم کے مطابق تواتر کی تعریف میں اصل شے ’علم قطعی‘ کا حصول ہے، جبکہ بعد ازاں تدوین ِ فن تواتر کی ایک ایسی فنی تعریف سامنے آگئی ہے، جو محققین اہل علم کی طرف سے ذکر کردہ تعریف تواتر کے اعتبار سے کچھ خاص ہے، جبکہ محققین والی تعریف ِ تواتر میں عمومیت پائی جاتی ہے، جوکہ چار شروط والی متواتر روایت کو لازما اور خبر واحد کو بعض مخصوص صورتوں میں شامل ہوگی۔ اب آتے ہیں اس بحث کی طرف کہ محدثین اور قراء کے ہاں تعریف ِ تواتر میں کوئی فرق ہے؟ اسی طرح یہ کہ قراء اور علماء کے مابین ثبوت ِقرآن کے لیے تواتر کی مشروطیت کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟ ہمارا کہنا یہ ہے کہ محدثین اور قراء کے یہاں تعریف ِتواتر میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی طرح ان کے مابین ثبوت قرآن کے لیے تواتر کی شرط لگانے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ جو تعریف محدثین کرام کے ہاں تواتر کی کی جاتی ہے، اس میں چونکہ محدثین کے ہاں خود دو آراء ہیں ، اسی نسبت سے قراء کرام کے ہاں بھی ثبوت ِقرآن کے ضابطہ کے بیان میں تعبیر کااختلاف ہواہے ۔ عملی بات یہ ہے کہ تمام قراء ، جن کا ثبوتِ قرآن کے ضمن میں تواتر کی شرط لگانے کے بارے میں اختلاف ہے، ان کے ہاں ثبوت ِقرآن کے ضمن میں جس بات کے حوالے سے اتفاق ہے، وہ ایسا ’علم قطعی‘ ہے،جسے محققین اہل علم کے ہاں ’تواتر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ محدثین کرام میں تعریف ِتواتر کے حوالے سے موجود اختلاف کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے بعض لوگ یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کے ثبوت کے ضمن میں ’شرط تواتر‘ کے بارے میں قراء حضرات عام علماء سے مختلف رائے رکھتے ہیں ،جبکہ امر واقعہ میں ایسا نہیں ہے۔ عام قراء قرآن مجید کے حوالے سے محققین محدثین، جوکہ تواتر کو علم قطعی سے مربوط کرتے ہیں ، کے موقف کے مطابق یہ رائے رکھتے ہیں کہ قرآن مجیدتواتر یعنی علم قطعی سے ثابت ہے یا بالفاظ دیگریوں کہاجاسکتاہے کہ قراء کے ہاں قرآن مجید کے ثبوت کے لیے’علم قطعی ‘کا حصول ضروری ہے، جو اکثر اوقات
Flag Counter