یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو فرقان اس سے مختلف طریقہ سے پڑھتے ہوئے سنا ہے جس طریقہ پر آپ نے پڑھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑ دو پھر حضرت ہشام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم پڑھو چنانچہ انہوں نے اسی طرح پڑھا جس طرح کہ میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اسی طرح اتری ہے پھر مجھے فرمایاعمر رضی اللہ عنہ تم پڑھو تو میں نے پڑھی تو آپ نے فرمایا یہ اسی طرح اتری ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’ّقرآن سات حروف پر نازل ہواہے، لہٰذاجس طرح سہولت ہو اسی طرح تم پڑھو۔‘‘ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ’’ فی الحجۃ قراءۃ القرآن بالقراءات السبعۃ والروایات کلھا جائزۃ ولکن أری الصواب أن لا یقرأ القراءۃ العجیبۃ بالإمالات وروایات الغریبۃ کذا في التاتارخانیۃ‘‘ [فتاویٰ ہندیہ فصل الرابع في القراءۃ، ج، ص۷۹] ’’حجہ میں ہے کہ سات قراء توں اور تمام روایات میں قرآن کا پڑھنا درست و جائز ہے، لیکن میں اس بات کو صحیح سمجھتا ہوں کہ نامانوس قراءت میں امالات اور روایات غریبہ کے ساتھ نہ پڑھا جائے جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے۔‘‘ فتاویٰ ردّ المختار میں ہے: لأن بعض السفھاء یقولون ما لا یعلمون فیقعون فی الإثم الشقاء ولاینبغی للأئمۃ أن یحملوا العوام علی ما فیہ نقصان دینھم ولا یقرأ عندھم مثل قراءۃ أبی جعفر وابن عامر وحمزۃ وعلی الکسائي صیانۃ لدینھم فلعلھم یستخفون أو یضحکون وإن کان کل القراءات والروایات صحیحۃ فصیحۃ ومشائخنا اختاروا قرا ء ۃ أبي عمرو حفص عن عاصم [ردّ المختار فصل فی القرأۃ :۱/۳۶۴] ’’اس لیے کہ بعض بے وقوف وہ کچھ کہیں گے جو وہ جانتے نہیں تو گناہ اور بدبختی میں مبتلاہوجائیں گے اور ائمہ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ عوام کو اس بات پر ابھاریں جس میں ان کے دین کا نقصان ہے اورعوام کے دین کوبچانے کے لیے ان کے سامنے ابوجعفر، ابن عامر، علی بن حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ کے قراءت میں قرآن مجید نہ پڑھا جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس کو ہلکاسمجھیں اور اس پر ہنسیں اگرچہ تمام روایات صحیح اور فصیح ہیں ۔ ہمارے مشائخ نے ابو عمرو حفص رحمہ اللہ کی قراءات کو اختیارکیا ہے جو عاصم رحمہ اللہ سے مروی ہے۔‘‘ فتاویٰ شامیہ میں ہے: القرآن الذی تجوز بہ الصلوٰۃ بالاتفاق ھو المضبوط في مصاحف الأئمۃ التی بعث بھا عثمان إلی الأمصار وھو الذی أجمع علیہ الأئمۃ العشرۃ وھذا ھو المتواتر جملۃ وتفصیلا فما فوق السبعۃ إلی العشرۃ غیر شاذ وإنما الشاذّ ما وراء العشرۃ وھو الصّحیح [فتاویٰ شامیۃ:۱/۴۸۶] واللّٰہ أعلم بالصّواب مفتی غلام سرور قادری (نائب مفتی)حافظ رب نواز (دار الافتاء، جامعہ رضویہ، ماڈل ٹاؤن لاہور) [۲۵] الجواب : |