Maktaba Wahhabi

126 - 933
مسلمان کے نزدیک قراءات عشرہ متواترہ ہیں جو أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمداً رسول اللّٰہ کا قائل ہے، اگرچہ وہ ایسا عامی ہی کیوں نہ ہو جس نے قرآن کریم میں سے ایک حرف بھی حفظ نہ کیا ہو۔لہٰذا ہر مسلمان کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کرے اور جو کچھ ہم نے پیچھے بیان کیا ہے اس پر یقین رکھے کہ وہ متواتر ہے اور اس یقین کے ساتھ عقیدہ رکھے کہ ان(قراءاتِ عشرہ ) میں شکوک وشبہات پیدا نہیں ہو سکتے۔‘‘ ٭ نواب صدیق حسن خاں بہادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ وقد ادعی أھل الأصول تواتر کل واحدۃ من القراءات السبع بل العشر‘‘ [حصول المأمول: ص۳۵] ’’اصولیوں نے قراءت سبعہ بلکہ عشرہ میں سے ہر قراءت کے تواتر کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ ٭ امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’وقد انعقد الإجماع علی حجیۃ قراءات القراء العشرۃ وأن ھذہ القراءات سنۃ متبعۃ لا مجال للاجتھاد فیھا....وقال....القراءات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ خلافاً لجماعۃ‘‘ [البرہان فی علوم القرآن :۱/۳۲۱،۳۲۲] ’’قراء عشرہ کی قراءت کی حجیت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے،یہ قراءت ،سنت متبعہ(یعنی توقیفی) ہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے....اور فرماتے ہیں :....ایک جماعت کی رائے کے برعکس یہ قراءات اختیاری نہیں بلکہ توقیفی ہیں ۔‘‘ ٭ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشھورۃ نقلاً متواترا‘‘ [المستصفیٰ:۱۰۱] ’’قرآن مجید وہ ہے جو مشہور احرف سبعہ پر نقل متواتر کے ساتھ دو گتوں کے درمیان ہم تک نقل کیا گیا ہے۔‘‘ ٭ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ لم ینکر أحد من العلماء قراءات العشرۃ‘‘ [مجموع الفتاوی:۱۳/۳۹۳] ’’اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی قراءات عشرہ کا انکار نہیں کیا۔‘‘ ٭ ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’فالمتواتر لا یجوز انکارہ لأن الأمۃ الإسلامیۃ قد أجمعت علیہ۔ وتواتر القراءات من الأمور الضروریۃ التی یجب العلم بھا‘‘ [شرح الفقہ الأکبر:ص۱۶۷] ’’متواتر کا انکار کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہو چکا ہے اور تواتر قراءات امورِ ضروریہ میں سے ہے جس کا علم ہونا واجب ہے۔‘‘ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ إن أصحاب القراءات من أھل الحجاز والشام والعراق کل منھم عزا قراء تہ التی اختارھا إلی رجل من الصحابۃ قرأھا علی رسول اللّٰہ ! لم یستثنِ من جملۃ القرآن شیئاً‘‘ [الإعلام:۲/۲۷۳] ’’حجازی،شامی اور عراقی اصحابِ قراءات میں سے ہر قاری نے اپنی اختیار کردہ قراءت کو کسی نہ کسی صحابی رسول کی طرف منسوب کیا ہے۔جنہوں نے قرآن میں سے کوئی چیز چھوڑے بغیر یہ قراءات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی۔‘‘ ٭ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وقد أجمـع المسلمون فی ہذہ الأعصار علی الاعتماد علی ماصح عن ھولاء الأئمۃ مما رووہ ورأوہ من القراءات وکتبوا فی ذلک مصنفات فاستمر الإجماع علی الصواب وحصل ما وعد اللّٰہ بہ من حفظ الکتاب وعلی ھذا الأئمۃ المتقدمون والفضلاء المحققون کالقاضی أبی بکر بن الطیب والطبری وغیرھما‘‘
Flag Counter