اپنی ان قراءات کے ساتھ نماز پڑھاکرتے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من أحب أن یقرأ القرآن غضا کما أنزل فلیقرأہ علی قراءۃ ابن أم عبد))
[سنن ابن ماجۃ:۱/۴۹، مسند أحمد:۱/۷،۲۶،۳۸،۴۴۵،۴۵۴]
’’جوشخص اس طرح قرآن پڑھنا چاہتا ہو جس طرح نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد(ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) کی قراءت پر پڑھے ۔‘‘
جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ نے قراءت قرآن میں اختلاف کیا تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(( اقرء وا کما علمتم)) تمہیں جیسے سکھلایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمعِ عثمانی سے قبل بعض ان قراءات کے ساتھ بھی نماز ادا کیا کرتے تھے جوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف سے حذف کر دیں ۔ وہ ان قر اء ات کی تلاوت میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کی قراءات کی تلاوت سے وہ بطلان نماز کے قائل تھے۔ [المغنی:۲/۱۶۶]
٭٭٭
|