Maktaba Wahhabi

93 - 243
رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا توقف صبح شام مسلسل دعوتِ دین کا کام کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر کفار کے سینے غصے اور حسد کی آگ سے کھول اُٹھے۔ قریش کے سردار ایک مرتبہ پھر ابوطالب کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ ابو طالب! تم ہمارے بزرگ ہو اور ہم میں مقام و مرتبہ والے ہو۔ ہم پہلے بھی درخواست کر چکے ہیں کہ اپنے بھتیجے کو باز رکھو، مگر تم نے اسے ابھی تک نہیں روکا۔ اللہ کی قسم! ہم اپنے معبودوں کی بے عزتی ہوتے نہیں دیکھ سکتے، تم اسے سختی سے منع کرو کہ وہ ہمیں بے و قوف اور ہمارے بتوں کو برا کہنے سے باز آجائے۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو ہمارے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ تاکہ ایک گروہ کا خاتمہ ہو جائے۔ قریش کے سردار یہ دھمکی دے کر چلے گئے۔ ابو طالب کو اپنی قوم سے علیحدگی اور ان کی دشمنی گراں محسوس ہو رہی تھی۔ اور وہ قریش کے مقابلے میں اپنے بھتیجے کو بھی تنہا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، نہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے دستبردار ہوسکتے تھے، تاہم انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج کر بلایا اور کہا: بھتیجے! قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے، وہ مجھ سے اپنے پرانے مطالبات دہراتے تھے، لہٰذا مجھ پر اور اپنے آپ پر رحم کرو اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جو میں اٹھا نہ سکوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ اب چچا جان بھی میری مدد چھوڑ دیں گے اور مجھے دشمنوں کے حوالے کر دیں گے کیونکہ اب وہ آپ کی مدد سے عاجز آگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا: ’’چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں اور مجھ سے اللہ کے دین کی تبلیغ چھوڑنے کا مطالبہ کریں تب بھی میں اللہ کے دین کی تبلیغ سے باز نہیں آؤں گا۔
Flag Counter