Maktaba Wahhabi

222 - 243
سلامتی کی دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر تک اس کے جنازے کے ساتھ گئے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اس جرأت اور دیدہ دلیری پر حیران و پریشان تھا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے تھے۔ مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ اللہ کی قسم! یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ﴾ ’’ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیااور وہ حالت فسق میں مرے۔‘‘ [1] عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی منافق کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی۔‘‘ مفسرین لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتایا کہ عبداللہ بن ابی کے ساتھ موت کے بعد کیسا سلوک کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری قمیص اور اس پر میری نمازِ جنازہ ادا کرنے کے عمل نے بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ اللہ کی قسم! مجھے امید تھی کہ اس واقعے سے اس کی قوم کے ایک ہزار افراد اسلام قبول کر لیں گے۔‘‘ [2]
Flag Counter