Maktaba Wahhabi

130 - 243
نہیں اور بے شک محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مکمل نہیں ہونے پائی تھی کہ ضماد بول اٹھا: ذرا یہ کلمات پھر دہرائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ کلمات دہرائے تو ضماد ازدی کہنے لگا: ’’میں نے کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے لیکن آپ کے فرمائے ہوئے کلمات آج تک کبھی کسی کی زبان سے نہیں سنے، یقیناً یہ کلمے سمندروں کی گہرائیوں تک پہنچ گئے۔‘‘ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہوا۔[1] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسیب زدہ بھی نہیں تھے تو پھر ابولہب ایمان کیوں نہیں لایا؟ اور کس چیز نے اسے دعوتِ توحید کی مخالفت پر مجبور کیا؟ کیا وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور دعوت کا انکار کرتا تھا اور دیگر دشمنوں اور منکروں کی طرح اُن کے کلام کو شاعرانہ باتیں سمجھتا تھا؟ ’’لبید بن ربیعہ‘‘ عرب کا مشہور شاعر تھا جو فصاحتِ لسانی ، بلیغ گفتگو اور موقع کی مناسبت سے شعر کہنے میں بڑی مہارت اور شہرت رکھتا تھا، جب اس نے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اپنے کلام کے ذریعے چیلنج کرتے ہیں تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں چند اشعار لکھے اور کعبہ کے دروازے پر یہ چیلنج کرتے ہوئے لٹکا دیے کہ کوئی ان اشعار کے مقابلے کا کلام لا کر دکھائے۔ کسی مسلمان نے یہ اشعار بیت اللہ کے دروازے پر لٹکے ہوئے دیکھے تو اسے بہت غیرت آئی، اس نے قرآنِ کریم کی چند آیات لکھ کر لبید کے اشعار کے ساتھ آویزاں کر دیں۔اگلے دن لبید بیت اللہ کے دروازے کے سامنے سے گزرا تو اس کی نظران قرآنی آیات پر پڑی۔ ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوا تھا، قرآنی آیات نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ بے ساختہ چیخ پڑا: اللہ کی قسم! یہ کسی انسان کا کلام نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
Flag Counter