Maktaba Wahhabi

106 - 243
ابوطالب نے تو یہ بھی دیکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے وقت اُن کے بچوں کے ساتھ بیٹھتے تھے تو کیسی برکت ہوتی تھی۔ تھوڑے سے کھانے میں بھی سب پیٹ بھر کر کھا لیتے تھے اور پھر بھی کھانا بچ جاتا تھا۔ اسی طرح جب تجارت کے سفر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ہوتے تو کس قدر نفع ہوتا تھا، ابو طالب نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات اور اخلاق و احوال کا بچپن اور جوانی میں سب سے بڑھ کر عینی مشاہدہ کیا تھا۔ انھوں نے آپ کی ذاتِ بابرکات میں رائی برابر بھی کبھی کوئی عیب نہ پایا۔ ابو طالب نے دیکھا کہ کعبہ کی تعمیر نو کرتے ہوئے حجر اسود کی تنصیب کے وقت جو زبردست جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا تھا، اُسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ ُتدبر نے کتنی خوش اسلوبی سے حل کر دیا اور لوگوں کو ایک ہولناک خون خرابے سے بچا لیا۔ اُس وقت مکہ مکرمہ کے سب گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل و دانش پر دنگ رہ گئے۔ شام کے تجارتی سفر میں بصری کے راہب بحیرا سے بھی ابو طالب نے یہ سنا تھا کہ مستقبل میں یہ بچہ نہایت عظیم الشان مرتبے پر فائز ہو گا۔ اسی شام کے تجارتی سفر سے واپسی پر ابو طالب نے خود بھی مشاہدہ کیا کہ سخت دھوپ میں ایک بدلی مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیے ہوئے ہے، پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو اس وقت جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی طرف سے نقل کیا، ابو طالب نے اس کے بارے میں اپنے بھتیجے پر قطعاً کوئی شک نہیں کیا۔ ان تمام امور کے ہوتے ہوئے بھی ابو طالب کفر ہی پر کیوں اڑے رہے؟ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں تامل کیوں اختیار کیے رکھا؟ اسلام قبول کرنے میں جلدی کیوں نہ کی؟ اس معاملے میں ان کے مد نظر کون سی شے مانع تھی؟
Flag Counter