Maktaba Wahhabi

46 - 222
اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ’’(اے نبی!) لوگ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں ، کہہ دیجیے: اللہ ’’کلالہ ‘‘کے بارے میں حکم دیتا ہے،اگر کوئی شخص مرجائے جس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہوتو اس کے لیے بھائی کے چھوڑے ہوئے مال کاآدھا حصہ ہے۔ اور اگر بہن (فوت ہوجائے اوراس) کی اولاد نہ ہو، تو اس کا بھائی اس کا وارث ہوگا، پھر اگر بہنیں دو (یا دو سے زیادہ) ہوں تو ان کے لیے بھائی کے چھوڑے ہوئے مال کا دو تہائی ہے۔ اور اگر کئی بھائی بہن ، مرد اور عورتیں (وارث) ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہوگا، اللہ تمھارے لیے وضاحت سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ، اور اللہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘[1] اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ کی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرکے، وضو کا (مستعمل) پانی مجھ پر چھڑکا جس سے میں ہوش میں آگیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنامال کیسے تقسیم کروں یا کہا: میں اپنے مال میں کیسا تصرف کرسکتا ہوں؟ میری نو بہنیں ہیں۔ اس وقت جابر رضی اللہ عنہ کے والدین تھے نہ اولاد تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ آیتِ میراث:
Flag Counter