جب خبیب رضی اللہ عنہ سولی کی طرف جاتے ہوئے مشرکین کے قریب ہوئے تو پھر ان کو مخاطب کرکے فرمانے لگے:
فَلَسْتُ أُبَالِي حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی أَيِّ شِقٍّ کَانَ فِي اللّٰہِ مَصْرَعِي
وَ ذٰلِکَ فِي ذَاتِ الإِْلٰہِ وَ إِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعِ
’’جب میں اللہ کی راہ میں حالت ِ اسلام میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی خاطر کس پہلو پر مجھے قتل کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہے، اگر وہ چاہے گا تو جسم کے ایک ایک کٹے ہوئے ٹکڑے میں برکت ڈال دے گا۔‘‘
اس کے بعد عقبہ بن حارث نیزہ لے کر آگے بڑھا اور خبیب رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔[1]
خبیب رضی اللہ عنہ کے واقعات پر نظر ڈالیں تو چند امور سامنے آتے ہیں:
خبیب رضی اللہ عنہ قتل سے بچ کر بھاگ سکتے تھے۔ وہ بچے کو، جو کھیلتا ہوا ان کے پاس آگیا تھا، یرغمال بناکر خود قتل سے محفوظ ہوسکتے تھے، نیز وہ اس بچے کو قتل کرکے اپنے قتل کا انتقام لے سکتے تھے کیونکہ وہ خود تو قتل ہو ہی رہے تھے، ایک دشمن کا خون بھی ہوجاتا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ایک مسلمان کی تربیت قرآن کی درس گاہ میں ہوئی ہے، اس لیے اس کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اخلاق عمدہ بنائے اور اپنے دین کی حفاظت کرے۔
|