Maktaba Wahhabi

170 - 222
اس آدمی کا مقصد تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے ان کی مسند خلافت پر خالد رضی اللہ عنہ کو، جو لشکر کے قائد ہیں، بیٹھنا چاہیے۔ مگر خالد رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔ خالد رضی اللہ عنہ کی تربیت چونکہ اسلام کے گہوارے میں ہوئی تھی، اس لیے اپنے فوجی سے فرمایا: لا، یا أخي! ’’میرے پیارے بھائی! ایسا ہرگز نہ سوچو۔‘‘ اس لیے کہ امت اسلامیہ جس نے سلطنت ایران کی اینٹ سے اینٹ بجادی، جس نے روم کا تخت الٹ دیا، آج اسے خالد کی تلوار کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور اس امت کو خالد کی تلوار سے بھی زیادہ عمر رضی اللہ عنہ کی عقل اور فہم و فراست کی ضرورت ہے۔ یہ محال ہے کہ ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے امت میں کسی قسم کا فتنہ سر اٹھائے۔ خالد رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی معزولی کی شکایت کی اور کہا: میں نے مسلمانوں کے سامنے آپ کا معاملہ ظاہر کردیا تھا۔ اللہ کی قسم! آپ میرے معاملات میں بالکل چاپلوسی سے کام لینے والے نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھارے پاس یہ اتنی دولت کہاں سے آگئی ہے؟ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یہ مال غنیمت ہے اور کچھ زائد مال (نفل) سے حاصل شدہ مال ہے، البتہ آپ میرے سارے مال کا حساب لگائیں اور ساٹھ ہزار درہم سے جو زائد ہو وہ آپ لے سکتے ہیں۔عمر رضی اللہ عنہ نے مال کا حساب لگایا تو ساٹھ ہزار درہم سے بیس ہزار درہم زائد تھے۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں رکھوادیے اور فرمایا: ((یَا خَالِدُ! وَاللّٰہِ! إِنَّکَ عَلَيَّ لَکَرِیمٌ وَ إِنَّکَ إِلَيَّ لَحَبِیبٌ)) ’’اللہ کی قسم! اے خالد! آپ میرے ہاں باعزت ہیں اور آپ مجھے بہت پیارے ہیں۔‘‘
Flag Counter