Maktaba Wahhabi

89 - 241
’’کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین پر خوب خونریزی کرلے۔ تم سامانِ دنیا کا ارادہ کرتے ہو اور اللہ آخرت کا ارادہ کرتا ہے۔ اور اللہ نہایت غالب، خوب حکمت والا ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے (ایک بات) پہلے لکھی ہوئی نہ ہوتی تو تمھیں اس کے بدلے میں جو تم نے لیا، بہت بڑا عذاب پہنچتا۔‘‘ [1] یوں قرآنِ مجید نے اس سلسلے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تائید کی۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق تو ان کی یہ رائے تھی کہ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، تاہم بدر کے ایک اسیر سردار سہیل بن عمرو کے بارے میں بھی ان کا مشورہ یہ تھا کہ اس کے سامنے کے دانت نکال دیے جائیں تاکہ جب بھی بولے، زبان پھسل جائے۔ یوں وہ کبھی ایسی تقریر نہیں کر پائے گاجسے مسلمان ناپسند کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں اس کا مثلہ نہیں کروں گا ورنہ اللہ میرا بھی مثلہ کرے گا، ہر چند میں نبی ہی ہوں۔ آپ نے مزید فرمایا کہ عین ممکن ہے، کبھی وہ ایسی بھی تقریر کرے جو آپ کو ناگوار نہ گزرے۔ آپ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ وفاتِ نبوی کے بعد جب اہل مکہ نے جادۂ اسلام سے انحراف کرنے کا ارادہ کرلیا اور حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مکہ کے والی تھے، وہ ان کے ڈر کے مارے چھپ گئے تو حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ سے خطاب کیا۔ حمد و ثنا کے بعد انھوں نے وفاتِ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کمزور نہیں پڑے گا۔ جس آدمی کے متعلق ہمیں شک گزرا کہ وہ اسلام سے منحرف ہونے کے لیے پَر تول رہا ہے، ہم اس کی گردن مار ڈالیں گے۔
Flag Counter