Maktaba Wahhabi

172 - 241
تاجر کے ورثا کو پہنچاتے، خالد بن ہشام آڑے آیا اور مال حاصل کرنا چاہا۔ ان تینوں نے اُسے مال دینے سے انکار کیا تو اس نے چھینا جھپٹی شروع کردی۔ اس کے ہمراہ اس کی قوم کے کئی اور افراد بھی تھے۔ فاکہ، عوف، عفان اور ان کے ہمراہیوں نے سخت مزاحمت کی۔ خالد بن ہشام کے ساتھیوں نے عوف بن عبد عوف اور فاکہ بن مغیرہ کو جان سے مار ڈالا۔ عفان، عثمان اور عبدالرحمن مال لے کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔[1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اسلام میں بلند مقام و مرتبہ پانا تھا، اس لیے وہ زندہ سلامت رہے۔ وہ اسلام کے پہلے مہاجر تھے۔ جب مکہ میں مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تو انھوں نے مع اہل و عیال حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کی باری آئی تو انھوں نے روپیہ پانی کی طرح بہایا۔ لڑائی کی نوبت آئی تو دشمنان اسلام کے خلاف بڑی بے جگری سے لڑے۔ ان صحابۂ کرام میں شامل تھے جنھیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ ان برگزیدہ افراد میں سے ایک فرد تھے جنھیں تاحیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت خاص کا شرف حاصل رہا۔ وفات نبوی کے بعد خلیفۂ رسول کے مصاحب خاص بنے۔ خلیفۂ رسول تمام اہم معاملات میں ان سے ضرور مشورہ کرتے۔ عنان خلافت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئی تو بھی وہ خلیفۂ ثانی کے مشیران خاص میں شامل رہے۔ نامساعد حالات میں ہمیشہ مسلمانوں کی مدد کرتے۔ اسلام کے زیر سایہ عثمان شام کے تجارتی سفر پر تھے۔ ان کے ہمدم دیرینہ طلحہ بن عبیداللہ اس سفر میں
Flag Counter