Maktaba Wahhabi

87 - 241
چند بے بس اور کمزور مسلمان ہی ان کے پیچھے گئے۔ عمر بن خطاب نے انھیں ضروری ہدایات دیں۔ انھیں بتایا کہ وہ کافروں کے چنگل سے کیونکر نکل سکتے ہیں، پھر وہ یثرب کی راہ پر گامزن ہوگئے۔[1] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں مدینہ منورہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام کے جانباز سپاہی بن کر زندگی گزارتے رہے۔ وہ حلقۂ یاراں میں بیٹھتے تو بریشم کی طرح نرم ہوتے۔ رزمِ حق و باطل میں خدا کے دشمنوں سے ٹکراتے تو فولاد کی مانند سخت اور ناقابلِ شکست ہوتے۔ بڑے دانش مند اور سمجھدار آدمی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہم معاملات میں ان کی رائے ضرور لیتے اور ان کا مشورہ اکثر قبول فرماتے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ جو رائے دیتے، اس کی تائید میں قرآنی آیات نازل ہوتیں۔ معرکۂ بدر اختتام کو پہنچا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر، حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم سے رائے طلب کی کہ بدر کے قیدیوں سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! یہ قیدی ہمارے عم زاد، اہلِ خاندان اور ہمارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ میری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم ان سے فدیہ لے کر انھیں آزاد کر دیں۔ فدیے کی رقم ہمارے کام آئے گی اور بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے دے اور یہ ہمارے دست و بازو بن جائیں۔ ان کی رائے سن کر آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’ابن خطاب! آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
Flag Counter