Maktaba Wahhabi

73 - 241
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آدمیت کی کان سے نکلا ایک کامل آدمی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی گھاٹیوں میں بھاگتے دوڑتے دیکھا تو تمنا کی کہ کاش اللہ تعالیٰ اِس آدمی کا دل اسلام کی روشنی سے منور کر دے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی فرمائی کہ بارے الٰہا! ابوجہل بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہے اُسے اسلام کی توفیق دے کر اسلام کو تقویت عطا فرما۔[1] ایک ایسا بہادر جو بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتا اور عکاظ کے میلے میں عرب کے بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑ ڈالتا تھا۔ نہایت تقویٰ شعار اور عبادت گزار۔ ام ابان نے ایک مرتبہ اس کے متعلق کہا: ’’وہ ایسا آدمی ہے جسے آخرت کی فکر نے دنیا کے افکار سے بیگانہ کر رکھا ہے، گویا وہ اپنے رب کو دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے۔‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ کی سنگلاخ وادی میں پرورش پائی تھی۔ وادی مکہ کی دہکتی فضا اور تیز دھوپ نے اس کی رنگت سنولا ڈالی تھی۔ اِس وادی کے آزاد ماحول، سخت پتھروں اور اونچے خشک پہاڑوں نے اُس کی جفاکشی کو خوب پروان چڑھایا تھا۔ وہ جوان ہوا اور بازوؤں میں دم آیا تو اس نے تیر اندازی، نیزہ بازی اور گھڑ سواری کے
Flag Counter