Maktaba Wahhabi

101 - 241
کے اموال غنیمت حسبِ ضرورت خرچ کروں گا۔ آپ کے وظائف اور آپ کی تنخواہوں میں ان شاء اللہ تعالیٰ اضافہ کروں گا۔ ملک کی سرحدوں کو محفوظ بناؤں گا اور انھیں مستحکم کروں گا۔ جب آپ فوجی مہمات پر جایا کریں گے تو آپ کی واپسی تک باپ بن کر آپ کے اہل و عیال کی نگہداشت کیا کروں گا۔‘‘ [1] یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھی چند باتوں میں اپنا دستور خلافت بیان کر دیا۔ اس دستور کی تشکیل کے سلسلے میں انھوں نے براہِ راست کتاب اللہ سے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفۂ اول کے فیضِ صحبت سے استفادہ کیا تھا۔ اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام جو انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ رکھتی ہیں، آج بھی جبکہ دنیا اِس قدر ترقی کر چکی ہے اور کاروانِ علم و عقل منزلوں آگے نکل چکا ہے، انسانی حقوق کی پاسداری اور احترام آدمیت کا وہ لائحہ عمل پیش نہیں کرسکیں جسے خلیفۂ ثانی نے آج سے چودہ سو برس پیشتر نہ صرف تشکیل دیا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کر دکھایا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کے روبرو جو حلف اٹھایا تھا، اسے پورا کرنا اور خود پر جو ذمے داریاں عائد کی تھیں، ان سے عہدہ برآ ہونا بڑے آدمیوں کا کام ہے۔ وہی افراد جنھیں اللہ تعالیٰ بدنی قوت کے ساتھ ساتھ علم و حکمت کی روحانی طاقت بھی عطا کرتا اور ان کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ اراکین کابینہ کا انتخاب اراکین کابینہ کے انتخاب کے سلسلے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہمیشہ صحابۂ کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ مشاورت ان کا ایک ایسا اصول تھا جس سے وہ جنگ ہو یا
Flag Counter