Maktaba Wahhabi

194 - 241
ان روایات و اقوال سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ صحابۂ کرام کو خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی یقینی طور پر توقع تھی کہ اگلے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ انھی روایات و اقوال سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ تمام صحابۂ کرام نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہایت متفقہ طور پر تیسرا خلیفہ منتخب کیا تھا۔ حجاز کے علاوہ ملک کے اطراف و اکناف میں بسنے والے تمام لوگ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی خلیفۂ ثالث دیکھنا چاہتے تھے۔ فتنہ شہادتِ عثمان حضرت امام زہری رحمہ اللہ کے بقول حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت بارہ برس تھی۔ ابتدائی چھ برس کسی آدمی نے آپ پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ آپ قریش کے ہاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ مقبول تھے۔ و جہ اس کی یہ تھی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان پر سختی کرتے تھے جبکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان سے بے حد نرمی برتی۔ اس کے بعد فتنہ برپا ہوا۔[1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی چھ برس میں مسلمان متحد تھے۔ ان کے بیچ کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے آخر میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ کئی طرح کے اختلافات نے جنم لیا تا آنکہ فتنہ پرور لوگوں کا ایک گروہ اٹھا اور انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بہیمانہ طور پر شہید کر دیا۔ آپ کی شہادت کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا اور مسلمان ہمیشہ کے لیے فرقوں میں بٹ گئے۔‘‘[2]
Flag Counter